کالی داس غضبناک نگاہوں سے مجھے گھور رہا تھا۔
’’تجھ جیسے مورکھ بڑی جلدی اپنی جاتی(ذات)بھول جاتے ہیں۔ تجھے کوئی شکشا دینا ہی پڑے گی۔‘‘ وہ گرج کر بولا۔
میرے دل سے کالی داس کا خوف نکل چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ بڑا غور الرحیم ہے انسان ساری زندگی گناہ کرتا رہے پھر بھی اگر سچے دل اسے یاد کرلے تو وہ معاف کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ میں نے بڑی دلیری سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جن میں شیطانی قوتوں کا رقص جاری ہو چکا تھا۔
’’اب تو دیا کی بھکشا بھی مانگے گا تو میں تجھے شما نہیں کروں گا۔‘‘ وہ غرایا۔
’’تجھ جیسے بدکار سے بھیک مانگوں گا؟ جا چلا جا نہیں تو میرا تیرا گلادبا کر زمین کو تیرے گندے بوجھ سے چھٹکارا دلا دوں گا۔‘‘ میں نے بے خوفی سے کہا۔ کچھ دیر وہ مجھے قہر آلود نظروں سے گھورتا رہا پھر اس کے موٹے ہونٹ ہلنے لگے۔ میرے کان کے پاس سرگوشی سی ہوئی۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’آیۃ الکرسی کا ورد شروع کر دو۔‘‘ اس کے ساتھ ہی میرے ہونٹ خود بخود حرکت میں آگئے۔ کالی داس نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کے چہرے سے کشمکش کااظہار ہو رہا تھا متحرک ہونٹ ساکت ہوگئے۔ میرا حوصلہ بڑھ گیا۔ وہ متذبذب سا مجھے دیکھ رہاتھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے۔ میرے ہونٹ مسلسل حرکت کر رہے تھے۔ کچھ دیر وہ غیض و غضب کی حالت میں کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھر بری طرح چونک اٹھا۔ وہ خوفزدہ نظروں سے میرے پیچھے کسی کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک وہ کسی چھلاوے کی طرح نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ کسی نے میری پشت پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں بجلی کی سی تیزی سے مڑا اور ہاتھ رکھنے والے کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔
میرے پیچھے ملنگ ہونٹوں پر شفیق مسکراہٹ لیے مجھ دیکھ رہاتھا۔
’’آج وہ مجھ سے نہیں تجھ سے خوفزدہ ہو کر بھاگا ہے۔ دیکھا اللہ پاک کی کلام کا کرشمہ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی بانہیں وا کر دیں میں بے اختیار اس کے مہربان سینے سے لگ گیا۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ملنگ میری پشت پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ میں اسکے شانے پر سر رکھے روتا رہا۔ ملنگ کا کندھا میرے آنسوؤں سے تر ہوگیا۔
’’بس کر میرے بچے! جب انسان سچے دل سے اس غفور الرحیم سے معافی مانگے تو وہ معاف کرنے میں ذرا دیر نہیں کرتا‘‘ اس نے نرم لہجے میں مجھے سمجھایا۔ تھوڑی دیر پہلے وہ مجسم قہر لیکن اب اس کی آنکھوں میں شفقت کا دریا موجزن تھا۔
’’شیطان ، انسان کا کھلا دشمن ہے اس نے مالک کائنات سے وعدہ کیا ہے کہ وہ قبر تک انسان کا پیچھا کرے گا اور اسے ہر صورت بہکائے گا۔ وہ اپنے کام میں مگن ہے افسوس تو یہ ہے کہ ہم اپنا فرض بھول چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس مقصد کے لئے زمین پر اپنا نائب مقرر کیا ہے؟ جو اس بات کو سمجھ لیتا ہے وہی کامیاب انسان ہے۔ یہاں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے اسے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک اور بات یاد رکھنا جب انسان راہ راست سے بھٹک جاتا ہے تو وہ رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے محروم نہیں۔ اس غفور الرحیم کا در تو ہر وقت کھلا رہتا ہے وہ پکارتا ہے ، ہے کوئی جو مجھ سے رحمت و مغفرت طلب کرے؟ لیکن میرے بچے! سیدھے راستے پر چلنے والوں کو کچھ آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے جس سے ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور درجات میں بلندی عطا ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو۔ لیکن اس بار تم ثابت قدم رہنا۔‘‘اس کی آواز نرم اور شفیق تھی۔
ہمیشہ قہقہے لگانے والا آج سنجیدگی سے مجھے ایمان کی باتیں سمجھا رہا تھا۔ دیوانہ آج فرزانوں جیسی باتیں کر رہا تھا۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کافی دیر تک مجھے سمجھاتا رہا۔ پھر نماز کی پابندی اور ذکر الٰہی کی تاکید کی۔ میں خاموشی سے سر جھکائے اس دانا کی باتیں سنتا رہا58
’’صراط مستقیم پر چلنا سیکھ‘‘
’’بابا جی! آپ تو مجھے وقت ہی نہیں دیتے۔ میں چاہتا ہوں آپ میری انگلی پکڑ کر مجھے سیدھے راستے پر چلنا سکھا دیں‘‘ میں نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔
’’قرآن پڑھو اور اس پر عمل کرو خود بخود سیدھے راستے کی نشاندہی ہو جائے گی‘‘ اتنا کہہ کر وہ چل پڑا۔میں اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن میری ہمت نہ پڑی کہ اسے آواز دوں اس کے جانے کے بعد میں گاڑی میں بیٹھ کر واپس روانہ ہوگیا۔ ایک جگہ رک کر میں نے کپڑے ٹشو پیپر سے اچھی طرح صاف کیے۔ گھٹنے کے قریب لگا گوبر کا داغ پانی سے دھویا اور بینک روانہ ہوگیا۔ کیبن میں بیٹھ کر میں نے سب سے پہلے محمد شریف کو بلوایا۔ وہ مسکراتا ہوا اجازت لے کر اندر داخل ہوا اور سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’محمد شریف میں۔۔۔‘‘
’’میں جانتا ہوں جناب! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں شکر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اپنی رحمت سے نواز دیا ہے۔‘‘ وہ میری بات کاٹ کر بولا۔
’’محمد شریف میں چاہتا ہوں کہ تم دوبارہ میرے گھر اور دفتر کا حصار کر دو‘‘ میں نے جھجکھتے ہوئے کہا۔ اس کے چہرے پر افسردگی پھیل گئی۔ وہ سر جھکائے خاموشی سے بیٹھا رہا۔
’’محمد شریف! تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔‘‘ میں نے اسے چپ دیکھ کر سوال کیا۔
’’جناب عالی! معذرت چاہتا ہوں اب یہ ممکن نہیں ‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’تم شاید میرے رویے سے ناراض ہو‘‘
’’ایسی بات نہیں جناب! میں تو آپ سے خفا ہونے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔ دراصل عملیات میں کچھ اصول ہوتے ہیں اگر انہیں توڑ دیا جائے تو بہت مشکل پیش آتی ہے۔ جب آپ نے حصار ختم کرنے کے لیے کہا تھا تو میں نے انہی بزرگ شخصیت سے گزارش تھی۔ وہ بہت برہم ہوئے تھے۔ لیکن میری درخواست انہوں نے رد نہیں کی۔ دوبارہ میں ان سے اس معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ میری مجبور کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ جناب!‘‘۔
محمد شریف کے چہرے سے اس کی سچائی کا اندازہ ہو رہا تھا۔ میرا سر جھک گیا۔ اپنی نادانی سے میں نے سب کچھ گنوا دیا تھا اب خود ہی کچھ کرنا تھا۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا مزید ان پُر اسرار قوت رکھنے والوں کے حکم کے آگے سر نہیں جھکاؤں گا۔ میں خود کو بدلا ہوا شخص پا رہا تھا۔ شریف کے جانے کے بعد کافی دیر اسی معاملے پر سوچتا رہا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ آخر کار میں نے سوچا صائمہ کو سارے حالات بتا کر اس سے مشورہ کروں۔
’’لیکن کیا میں سب کچھ اسے بتا سکتا تھا؟ وہ مر کر بھی گوارانہ کرتی کہ اس کی موجودگی میں کسی اور کے ساتھ تعلقات رکھوں۔ کیا وہ رادھا یا بسنتی کے ساتھ گزرے دنوں کے باوجود مجھے اسی طرح چاہتی رہے گی؟‘‘
سوچوں نے میرے دماغ کو تھکا کر رکھ دیا۔ کالی داس ایک بار پھر میرا دشمن بن چکا تھا۔ بسنتی نے بار بار مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں کالی داس کی مدد ضرور کروں۔ شام پانچ بجے جب میں گھر پہنچا تو تھکن سے برا حال تھا۔ ابھی تک میرے دائیں جبڑے میں سخت درد ہو رہا تھا۔ ملنگ کے ایک تھپڑ نے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔
میں واقعی صراط مستقیم سے بھٹک گیا تھا۔ ’’رادھا کے آنے کے بعد تم دوبارہ تو ان راہوں کے مسافر نہیں بن جاؤ گے؟‘‘ میرے ضمیر نے سوال کیا؟میرا یقین مضبوط تھا۔ اس لئے مجھے اپنے ضمیر کی تنقید بری نہ لگی۔
رادھا کے واپس آنے میں ایک دن رہ گیا تھا۔ اس کے تصور سے میرے دل کی دھڑکنیں ایک بار پھر اتھل پتھل ہونے لگیں لیکن میں نے خود کو سختی سے سمجھایا کہ اب کچھ بھی ہو میں کسی کا ناجائز مطالبہ تسلیم نہ کروں گا۔ مغرب کی نماز با جماعت ادا کی صائمہ بہت خوش تھی۔ اس دن میں نے زیادہ وقت بچوں کے ساتھ کھیلتے گزارا۔ یوں محسوس ہوا جیسے میں کافی عرصے بعد گھر واپس آیا ہوں۔ رات دیر تک میں اور صائمہ باتیں کرتے رہے۔ دوسرے دن میں علی الصبح جاگ گیا۔ فجر کی نماز کے لیے بھی میں مسجد گیا۔ یہ سب کچھ بتانے سے میرا یہ مقصد قعطاً نہیں کہ میں خود کو نیک اور پرہیز گار ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ میری مراد فقط یہ ہے کہ میری داستان پڑھنے والوں کو اصل حقائق کا علم ہو سکے کہ جب ہم سدھے راستے پر چلنا شروع کرتے ہین تو کوئی بھی شیطانی قوت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
ان خرافات کی وجہ سے کام پر بھی کوئی خاص توجہ نہ رہی تھی۔ میں فائلز کے ڈھیر سامنے رکھے اپنے کام میں مصروف تھا۔ چاہتا تھا کافی سارا کام نپٹا لوں۔
’’کیسے ہو پریتم‘‘ رادھا کی آواز سن کر میں اچھل پڑا۔ دیکھا تو وہ قتالہ عالم میرے سامنے والی کرسی پر براجمان تھی۔ میں یک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ اس کا حسن مزید نکھرآیا تھا۔ اسے دیکھ کر گلاب کی نو شگفتہ کلی کا احساس جاگ پڑتا تھا۔
’’کن و چاروں میں گم ہو پریم؟‘‘ اس کی مدھر آواز آئی۔
’’کچھ بدلے بدلے سے جان پڑتے ہو‘‘ اس کی کھوجتی نظریں میرے چہرے پر مرکوز تھیں۔
’’کیا اتنی جلدی اپنی داسی کو بھول گئے، میں کوئی اور نہیں وہی رادھا ہوں‘‘ اس کے نرم و نازک لبوں پر بڑی دلآویز مسکراہٹ رقصاں تھی۔ میں نے سر جھٹک کر سفلی جذبات سے پیچھا چھڑایا۔
’’جانتا ہوں تم وہی رادھا ہو لیکن ۔۔۔اب وہ فاروق خان نہیں رہا‘‘ میرا لہجہ مضبوط تھا۔
’’ہاں میں دیکھ رہی ہوں کچھ شکتیاں تمرے سنگ ہیں۔ پرنتو پرائی شکتی پر کیا مان کرنا۔ اور ہم کونسے بیری ہیں ہم تو ایک دوجے کے سجن ہیں۔‘‘
’’اسلام میں اس کی گنجائش نہیں کہ غیر محرم مرد و عورت خواہ ان کا تعلق انسانوں سے ہو یا قوم جنات سے ایک دوسرے کے دوست بنیں‘‘ میری دلیل سے اس کے چہرے پر غصے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت نظر آئی۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتی رہی پھر بولی۔
’’یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے مومن!؟‘‘
’’میرا نام فاروق خان ہے‘‘ میرا لہجہ خشک تھا۔
’’اچھا۔۔۔؟‘‘ اس نے اچھا کو خاصا کھینچ کر ادا کیا۔
’’کیا تم سب کچھ بھول گئے؟ کیا تم نے اپنی رادھا کو بھی بھلا دیا۔ یا تم مجھ سے کسی بات پر ناراج ہو؟ مجھے یہ جانکاری مل چکی ہے میرے نہ ہونے سے تم کشٹ میں پڑ گئے تھے۔ پرنتو میں تمہیں بتایا تو تھا کہ جاپ کرتے سمے میں کسی دوجی اور (طرف) دھیان نہیں دے سکتی۔ اور یہ بات تو تم اوش نہیں بھولے ہوگے کہ میں نے تمہیں کیا اپدیش دیا تھا؟ یدی تم نے کسی ناری سے شریر کا سمندھ جوڑا تو میں تمری سہائتا نہیں کر پاؤں گی اور تمرے بیری ایسے ہی کسی اوسر کی تاک میں ہیں‘‘ اس نے مجھے یاد دلایا۔
’’پرنتو اب میں آگئی ہوں جو کچھ بسنتی اور کالی داس نے تمرے سنگ کیا ہے جانتی ہوں۔ دیکھنا رادھا انہیں کیسی شکشا دیتی ہے؟‘‘ اس کا لہجہ نرم تھا۔
’’جس نے جو بھی کیا اچھا نہیں کیا لیکن میں کسی کو قصور وار نہیں ٹھہراتا کیونکہ غلطی میری تھی۔ میں ہی اپنی راہ سے بھٹک گیا تھا۔ سب کچھ میری نادانی کی وجہ سے ہوا۔ میں تمہیں بھی قصور وار نہیں سمجھتا رادھا! تم نے کئی بار مشکل وقت میں میری مدد کی ہے میں تمہارا احسان کبھی نہ بھول پاؤں گا‘‘ وہ حیرت سے آنکھیں کھولے میری طرف دیکھ رہی تھی۔(جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر73 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں