کشمیر…… درد کا شجر
محصور وادی کی وہی پُراسراریت ہیبت ناک خاموشی اور معلومات کی وہی تاریکی، البتہ 23اگست 2019ء کو ”نیو یارک ٹائمز“ کی تقریباً چھ منٹ کی بصری رپورٹ(وڈیو) نے پھر دِل دہلا دیا۔وہی آہ و بکا، جوانوں کا جوش، ماؤں کی چیخ و پکار …… اور سب سے زیادہ المناک تصویر ایک دوشیزہ کی جس کی ہتھیلیوں پر مہندی کے نقش و نگار کے بجائے خون سے لکھا تھا…… ”Save me“…… بے اختیار فیض احمد فیض کی نظم ذہن میں تازہ ہوئی!
یہ رات اسی درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تم سے عظیم تر ہے
اسی کربناک پَل علامہ اقبالؒ اور ان کی ولولہ انگیز شاعری کی اکسیر کی یاد نے ستایا،کیونکہ اس وقت ہمیں اور کشمیریوں کو اس کلام کی ضرورت ہے، جو ممولے کو شاہین بنا دے۔
کشمیر اور خصوصاً سری نگر کے محاصرے کو 23دن گذر گئے، اس دوران کئی اکٹھ ہوئے، کئی تھنک ٹینکس نے اجلاس بلائے۔ ٹی وی دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور سفارت کاروں کے انٹرویو اور تجاویز سنیں۔ چند ایک سفارت کار آج کل تقریباً ہر روز اس سلسلے میں ٹی وی پر نمودار ہوتے ہیں۔ غالباً ان کی ریٹنگ(یعنی ٹی وی کی دُنیا کی اصطلاحوں میں) زیادہ ہے۔ انہی میں سے ایک صاحب ِ بصیرت، پہلے تو مسئلہ کشمیر کی تاریخ بتاتے رہے۔ پھر اس بند گلی کی طرف اشارہ کیا، جس میں اس وقت ہم اور کشمیری کھڑے ہیں، اور بالآخر مسئلہ کشمیر کا حل یہ بتایا کہ پہلے ہم اپنے آپ کو مضبوط کریں،اپنے مستقبل کو تابناک بنائیں، یقینا آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ سوال گندم جواب چنا۔ویسے مشورہ بُرا نہیں،بلکہ بہت عمدہ،مگر اس کا کشمیر کے موجودہ ہنگامی نوعیت کے مسائل کے حل سے کیا تعلق؟ مستقبل میں ہمارے مضبوط ہونے سے لمحہ موجود میں کشمیر کے زخموں سے رستے ہوئے خون کا کوئی مداوا ممکن ہے؟
’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘
مندرجہ بالا حل کے علاوہ موصوف نے فرمایا کہ مودی حکومت عنقریب کشمیر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا عندیہ ظاہر کر رہی ہے۔”دیکھیں نا ہمارا آزاد کشمیر کتنا پس ماندہ ہے۔ ہم نے اپنے لیے تو موٹرویز بنا لیں،ان کے لئے پنڈی سے مظفر آباد تک موٹروے بنا دیتے تو کیا بات تھی…… اور انہیں اپنی حکومت بنانے میں مکمل آزادی ہوتی، یعنی ہونی چاہئے۔ کل پاکستان سیاسی جماعتوں کا وہاں کوئی وجود ہی نہیں ہونا چاہئے“۔
سبحان اللہ۔ موصوف جانے مدعی ہیں یا استغاثہ۔ اپنے فریق ہی کے خلاف دلائل اور ان کے نتائج سے بے خبری…… اللہ اللہ۔ بھارت تو آئینی طور پر متازعہ علاقے کو اپنا چکا اور ہم آزاد کشمیر سے اتنے دور ہو جائیں کہ پاکستان کی ملک گیر سیاسی جماعتیں وہاں موجود ہی نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں مقبوضہ کشمیر تو بنے گا پاکستان اور آزاد کشمیر بن جائے علاقہ غیر۔
ہمارے ہاں محاصرہ کشمیر اور اس کی عمومی حیثیت کی آئینی تنسیخ کے سلسلے میں سماجی سطح پر جو ہلچل دکھائی دے رہی ہے وہ یقینا مثبت ہے،لیکن ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس سلسلے میں جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ کس حد تک مفید ہیں اور عوام کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے،ہم جو کہتے ہیں کیا اس سے کشمیر اور پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہو گا یا کمزور؟ گزشتہ اتوار کو ایک تھنک ٹینک میں خصوصی مقرر ایک سابقہ سفارت کار تھے اور پاکستانی وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے۔ نہایت ذہین، فطین و متین۔ان کے فرمودات قابل ِ ذکر اور قابل ِ غور ہیں۔انہوں نے فرمایا کہ ہماری قوم بہت سادہ لوح ہے۔بھارتی آئین کی جن دفعات کو تبدیل کیا گیا ہے وہ تو محض علامتی تھیں اور یہاں لوگ یوں واویلا کر رہے ہیں جیسے لمحہ موجود میں پہلی مرتبہ کشمیر میں بھارتی فوج داخل ہو رہی ہو،حالانکہ وہ تو بہت پہلے ہی سے ان کے فوجی قبضے میں چلا گیا تھا۔
گویا کہ پاکستان یا پاکستانی عوام کا ردعمل عرف واویلا بے محل اور بے تکا ہے۔ حضور والا! اس وقت کے قبضے اور اس وقت کے المیے میں نمایاں فرق یہ ہے کہ اس وقت کشمیریوں کی نسل کشی اور شناخت کی نفی کے امکانات اتنے واضح نہیں تھے۔ یہودیوں نے ہالو کاسٹ(نازی جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی) کو نہیں بھلایا، لیکن ہم نے نہ صرف1947ء کے فسادات کو بھلا دیا، بلکہ بوسنیا اور کوسوو میں مسلمانوں کی اجتماعی قبروں،برما میں مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیروں اور بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے والوں کو فراموش کر دیا۔
دوسری بات جو آپ کے فرمودات کا حصہ ہے،اس کا تعلق کشمیر کی خصوصی حیثیت کی نوعیت سے ہے جو بھارتی آئین کی دفعات کو محض علامتی قرار دینے سے ہے۔جناب عالی! قوموں کے لئے علامتیں اہم ہوتی ہیں۔ یہ معاشرتی نفسیات کی ایک حقیقت ہے۔البتہ یہ سچ ہے کہ اصل جنگ وہی لڑتے ہیں جن کے گھر، بازار اور گلی کوچے میدان کار زار ہوتے ہیں …… جن کے دن راتوں سے زیادہ تاریک ہوتے ہیں …… جن پر ستم ہو رہے ہوتے ہیں۔
جس تن لاگے وہی تن جانے
ہم شاید یہاں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر کافی اور جوس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سری نگر اور کشمیر کے باقی علاقوں کے کرفیو زدہ دِنوں اور تاریک راتوں کے سناٹے کو چیرتی ہوئی گولیوں اور بے بس لوگوں کی چیخوں کو محسوس نہیں کر سکتے۔خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم ان دنوں …… ان راتوں کو تصور کی آنکھ سے دیکھ سکیں اور ان مظلوموں کی بے بسی اور کرب کو محسوس کر سکیں۔ہم کچھ تو کر سکیں۔