مقبوضہ کشمیر کی سب سے بڑی جیل،وزیراعظم نے پاکستان کا موقف واضح کر دیا
وزیراعظم عمران خان کو بالآخر مقبوضہ کشمیر کی دگرگوں صورت حال پر پاکستان کی پوزیشن دو ٹوک انداز میں واضح کرنے کے لئے قوم سے خطاب کرنا پڑا تاکہ اس ضمن میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر تنقید سے پیدا ہونے والے کنفیوژن کو ختم کیا جا سکے،کیونکہ اپوزیشن مقبوضہ کشمیر کی صورت حال میں ڈرامائی انداز میں پیدا ہونے والی تبدیلی کا ملبہ وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات پر ڈال رہی ہے،کیونکہ عمومی تاثر یہی ہے کہ جب امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کے مطالبہ پر مسئلہ کشمیر کے دیرینہ تنازعہ کو حل کرنے کے لئے امریکی ثالثی کی پیش کش کی تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سازش کی بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔ بھارتی میڈیا میں امریکی ثالثی کی پیش کش پر خوب تنقید ہوئی اور بھارت میں عوامی جذبات کو بڑھایا گیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل بآسانی کر سکیں، تب سے مقبوضہ کشمیر میں 90 لاکھ کشمیریوں کو بھارتی افواج نے کرفیو کے مسلسل نفاذ کے ذریعے ایک طرح سے حراست میں لے رکھا ہے۔بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر اس وقت دُنیا کی سب سے بڑی غیر رسمی جیل بن چکی ہے۔ بھارتی افواج نے مسلسل 25روز سے کرفیو کے نفاذ کے ذریعے حریت پسند نہتے کشمیری عوام پر ظلم اور بربریت کی داستانیں رقم کر ہیں، حتیٰ کہ بھارتی حکومت نے اپنے اپوزیشن رہنماؤں کے مقبوضہ کشمیر میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔بھارت کے کانگریسی رہنماؤں نے مقبوضہ کشمیر میں حالات کا جائزہ لینے کے لئے وہاں جانے کی کوشش کی تو انہیں روک دیا گیا۔اس صورت حال پر پاکستانی عوام میں بھی شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس وقت ایک بدمست ہاتھی بنا ہوا ہے۔ درحقیقت بھارت کا امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ ایشیا میں چین کے خلاف جب سے گٹھ جوڑ ہوا ہے تب سے بھارت نے جنوبی ایشیا میں بالادستی کے اپنے دیرینہ خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات کا آغاز کر رکھا ہے۔بالخصوص نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان کی صورت حال سے بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ پاکستان جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دُنیا کو محفوظ بنانے کے لئے صف اول کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے ملک سے دہشت گردی کے ٹھکانوں اور نیٹ ورکس کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑ رہا تھا تو بھارت نے افغانستان میں اپنے پنجے جما لئے اور امریکہ و اہل ِ مغرب نے پاکستان سے ڈومور کے مطالبہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا،لیکن افغان وار کی حالیہ ”اینڈ گیم“ کے مرحلے میں پاکستان کے کلیدی کردار سے خطے میں کھیل کا پانسہ پلٹ گیا، جس کی بنا پر بھارت کی فرسٹریشن اور بوکھلاہٹ میں اضافہ ہونے لگا۔ اگرچہ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لئے امریکہ اور افغان طالبان میں مذاکرات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے،لیکن جب بھی کوئی ڈیڈ لاک جیسی صورت حال بنتی ہے تو پاکستان کے اثرو رسوخ کے باعث افغان طالبان دوبارہ مذاکرات کی میز پر آ جاتے ہیں،جس کی بنا پر اہل ِ مغرب اور امریکہ کے لئے پاکستان کے کے مثبت کردار کو جھٹلانا ناممکن نظر آ رہا ہے۔اسی وجہ سے ایک سال قبل امریکی صدر نے اپنے ایک ٹویٹ میں پاکستان کے بارے میں جن منفی جذبات کا اظہار کیا تھا اس کا ازالہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں گرمجوشی اور پاکستان کے لئے نیک جذبات کے اظہار سے کر دیا۔اس پر مستزاد انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کی بھی پیشکش کر ڈالی،جو اس وقت پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی تھی، کیونکہ بھارت چالاکی سے ہمیشہ ہر فورم پر یہی کہتا تھا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان او ربھارت کا دو طرفہ معاملہ ہے،لیکن پاکستان سے مذاکرات کے لئے آمادہ نہ ہوتا تھا۔ پاکستان کی اس سفارتی کامیابی سے بھارت مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے عزائم خطرے میں پڑتے نظر آنے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں درج خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔یہ حالیہ سارا قصہ امریکی صدر ٹرمپ کی پیش کش سے شروع ہوا جس کی بنا پر پاکستان میں بھی اپوزیشن وزیراعظم عمران خان پر کڑی تنقید کر رہی تھی۔ تاہم پاکستان نے اس بھارتی اقدام کے خلاف دُنیا بھر میں سفارتی محاذ کو خوب گرم کر رکھا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔ دُنیا سے روابط کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی بھی حمایت حاصل کی۔انہوں نے اقوام متحدہ سے بھی متحرک سفارت کاری کی،جس کی بنا پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں 50سال بعد پہلی بار مسئلہ کشمیر پر ایک مشاورتی اجلاس ہوا۔ اگرچہ اس مشاورتی اجلاس سے کوئی ٹھوس نتیجہ تو برآمد نہیں ہوا،لیکن کم از کم دُنیا کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور حساسیت سے کچھ نہ کچھ ضرور آگاہی ہوئی،اب پاکستان کے لئے موقع ہے کہ آئندہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو خوب گرمائے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل اور کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کے خلاف قرارداد پیش کرے اور اسے منظور بھی کروائے۔وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں یہ بات درست کہی ہے کہ نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات کر کے درحقیقت کشمیر کے حل کے لئے ایک طرح سے راستہ ہموار کر دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوک انداز میں خطاب کے ذریعے بھارت اور پوری دُنیا کو پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان کشمیری عوام کے لئے آخری حد تک جائے گا۔اب اقوام متحدہ پر منحصر ہے کہ وہ دو ایسی طاقتوں کو جنگ سے روکنے کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے۔ دوسری جانب جی سیون ممالک کے سربراہی اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی شریک ہیں اور وہاں عالمی رہنماؤں نے مسئلہ کشمیر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جی سیون سربراہی کانفرنس میں شریک عالمی رہنماؤں نے کشمیر کے پُرامن حل پر زور دیا ہے، جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت دوطرفہ طور پر یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہوتے تو یہ مسئلہ حل ہو گیا ہوتا۔اگر یہ دونوں ممالک دو طرفہ طور پر مسئلہ کشمیر حل نہ کر سکے تو امریکہ ثالثی کا کردار ادا کرے گا۔امریکہ اور مغربی ممالک مقبوضہ کشمیر کی دِگر گوں صورت حال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔آئندہ آنے والے چند مہینے جنوبی ایشیا میں قیام امن کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔تاہم پاکستان کی عسکری قیات بشمول آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پاک بھارت سرحدی صورت حال کے حوالے سے پوری طرح چوکس بھی ہیں اور خطے کے دوست ممالک کی عسکری قیادت سے بھی روابط میں ہیں۔اس ضمن میں چین کے ایک اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا حالیہ دورہئ پاکستان نہایت اہم ہے۔چین مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر کھل کر پاکستان کی حمایت کر رہا ہے۔اقوام متحدہ میں بھی چین نے پاکستانی موقف کی حمایت کی۔ پاکستان کا خارجہ محاذ گرم ہے،لیکن داخلی سطح پر سیاسی محاذ آرائی جاری ہے،اب دیکھنا ہے کہ حکومت داخلی محاذ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے،کیونکہ آل پارٹیز کانفرنس اگلے ماہ اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کے ایجنڈے پر سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔