سیاست دان حضرات اور عوام کے مسائل مختلف!
صبح سے سوچ سوچ کر تھک گیا، موضوعات کی بھر مار ہے، کس پر لکھا جائے، سمجھ نہیں آ رہی۔ آج تو سردار صاحب والی کیفیت ہے۔ جنہوں نے تین سوئمنگ پول بنائے اور بڑے فخر سے دوستوں کو بتا رہے تھے کہ یہ گرم پانی والا پول ہے، اور یہ ٹھنڈے پانی والا، دوستوں نے تیسرے کے بارے میں پوچھا جو خالی تھا، سردار صاحب نے جواب دیا کبھی نہ نہانے کو بھی جی چاہتا ہے۔ آج کچھ ایسی ہی کیفیت ہے، لیکن حالات و واقعات کا تقاضہ ہے کہ کچھ تو کہا جائے اور کچھ نہیں تو غبار دل ہی کے لئے راہ نکال لی جائے۔ بات کچھ یوں ہے کہ ملک اور عوام کے حقیقی مسائل اور ہیں۔ حکمرانوں اور حزب اختلاف والوں کے اور ہیں، اس لئے عوام کی بات تو ”گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے“ والی ہوتی ہے، اور سوئی اپنی پسند پر اٹکی رہتی ہے۔ آج مہنگائی نے سفید پوش حضرات کی چولیں بھی ہیں ہلا دی ہیں، بجٹ خراب ہو گئے، اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے، خصوصاً جو لگی بندھی آمدن (فکس انکم گروپ) والے ہیں، وہ تو اپنے اخراجات کو کم کرتے کرتے، ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اب ان کے پاس مزید کوئی گنجائش نہیں رہی، وہ پاؤں سکیڑ کر کوشش کرتے ہیں چادر پھر بھی پوری نہیں ہوتی۔
اس پر مسترادیہ کہ بازار میں خالص اشیاء بھی نہیں مل پاتیں۔ حتیٰ کہ نئی نسل کی صحت کے لئے دودھ بھی صحیح نہیں ملتا ہر روز سینکڑوں لیٹر دودھ ضائع کیا جاتا ہے۔ یہ حضرات اس ہونے والے نقصان کو پھر سے ملاوٹ کر کے ہی پورا کرتے ہیں، اب اس میں آپ کا اور میرا کیا قصور ہے کہ 55 روپے فی کلو والی چینی سو روپے فی کلو خریدنے پر مجبور ہیں اور یہی کیفیت آٹے کی ہے۔ یہ انتہائی ضروری اشیاء ہیں، اس میں عوام کا کیا قصور؟ ہمارا ملک زرعی ہے، گندم اور چینی کی پیداوار وافر تھی، بلکہ گندم کے ضائع ہونے کی بھی اطلاع تھی پھر ہمارے عقل مند پالیسی سازوں نے نہ صرف چینی بلکہ گندم بھی برآمد کر دی اور اب نرخ نیچے لانے کے لئے ہر دو اشیاء درآمد کی جا رہی ہیں، وفاقی وزیر خوراک فخر امام نے خوشخبری سنائی 65 ہزار ٹن گندم لے کر ایک بحری جہاز بندر گاہ پر پہنچ گیا اور مزید آ رہے ہیں۔ لوگو! خوش ہو جاؤ۔ شاید آٹا خالص اور سستا ملے۔ لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ یہ بھی نہیں ہوگا، ہم مہنگی گندم خرید کر اس پر سبسڈی دیں گے، اور پھر مل مالکان سے توقع کریں گے کہ وہ 20 کلو کا تھیلا 860 میں فروخت کریں۔ مرے کو مارے شاہ مدار پہلے مہنگی خریدیں اور پھر اس رعایت سرکاری خزانے سے دیں اور صارفین حضرات یہ رقم جو سرکاری خزانے سے گندم کی درآمد اور سبسڈی پر خرچ ہو گی یہ آپ ہی کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی ہے۔ کسی فخر امام محترم نے یہ خسارہ اپنی جیب سے تو پورا کرنا نہیں ہے۔
بہر حال یہ تو غبار دل ہے کہ آپ قارئین کے بھی دل ہی کی بات ہے۔ چلیں کچھ ذکر حالات حاضرہ کا بھی کر لیں کہ ان دنوں سرکار والا تبار کو سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی ذات ہی سے دلچسپی ہے اور ان کی واپسی ہی ملک میں سب سے بڑا مسئلہ ہے بارشوں سے ہونے والی تباہی اور بھارت کی آبی جارحیت کے ذکر کی بھی کوئی ضرورت نہیں، کہ یہ معمول ہے۔ جب بھی بارش ہو یہ مسائل سامنے آتے ہی ہیں۔ اگرچہ اس بار کچھ زیادہ بارشیں ہو گئیں یہاں بھی ڈنڈی مار پروگرام جاری ہے کراچی اور حیدر آباد میں پانی کی تباہی تو نظر آتی ہے۔ بلوچستان کے سیلاب، پشاور کی میٹرو بس کی چھتوں کے سوراخ اور سڑکوں پر سیلاب دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی چناب میں بھارت کی طرف سے ایک لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی چھوڑ دینے سے ہونے والا نقصان اور سیلاب نظر آتا ہے اور نہ ہی لاہور کی نشیبی آبادیوں کا کوئی پرسان حال ہے، بس اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ نوازشریف کی واپسی ہے، اب تو وفاقی کابینہ نے باقاعدہ منظوری دی کہ ان کو واپس لایا جائے، لیکن کیسے یہ وزیر قانون اور مشیر پارلیمانی امور جائیں۔ لیکن گورنر محمد سرور اور شیخ رشید کی بات پر غور نہ کریں، جو یہ معرکہ نا ممکن قرار دیتے ہیں، اب یہ خود نوازشریف پر منحصر ہے کہ وہ کب آتے اور جیل جانے کے لئے تیار ہو کر آتے ہیں کہ ہمارے فواد حسین چودھری کہتے ہیں کہ وہ آئیں ان کو جیل جانا ہوگا ویسے ابھی ان کی ضمانت بحال ہے، وہ منسوخ نہیں ہونی اس ساری الجھن کی سلجھن کے لئے یکم ستمر کا انتظار ہی بہتر ہوگا، جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہو کر زیر سماعت آئے گا۔
اسی حوالے سے مولانا فضل الرحمن بھی زیر بحث آتے ہیں، جو حکومت کے خلاف تحریک کے حامی ہیں، جبکہ ان کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے شکایت بھی ہے، چنانچہ ان سے محمد شہباز شریف کی ملاقات اور محمد نوازشریف کی ٹیلیفون بات چیت کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ تو صاحبو! اب تک میڈیا کے مطابق تو اختلافات برقرار ہیں اور متحدہ اپوزیشن کا قیام مشکل ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن، نوابزادہ نصراللہ کے پیرو کار ہیں، نوابزادہ مرحوم سے ہم صحافی دوستوں کی بے تکلفی بھی تھی اور وہ ہمارے ساتھ بات بھی کر لیتے تھے۔ ایک بار ہم نے پوچھا کہ وہ یکایک اتحاد کیسے بنا لیتے ہیں۔ ان کا جواب تھا، یہ سب یکایک تو نہیں ہوتا، آپ لوگ (صحافی) اختلاف کا ذکرکرتے رہتے ہیں اور ہم مختلف راہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں اور بحث کرتے رہتے ہیں۔ اسی دوران اجلاس بھی بلاتے رہتے ہیں۔ آپ حضرات (صحافی) ادھر الجھے رہتے ہو اور ہم الگ الگ تمام امور طے کر کے فیصلہ کر لیتے اور پھر ایک روز آپ حضرات (صحافیوں) کو بلاگر بتا دیتے ہیں، اور آپ حیرت کا اظہار کرتے ہیں، تو حضور! یہ خیال رہے کہ جو لوگ آج بھی میدان میں ہیں وہ نوابزادہ کے دور والے ہیں، بلاول اگر نئے ہیں زرداری موجود ہیں، اب تو ان کی صحت بھی بہتر ہے، اس لئے ہم تو انتظار کرتے ہیں کہ کس روز متحدہ اپوزیشن کا اعلان سامنے آتا ہے۔