طالبان کی جاسوسی میں سنی ہوئی گفتگو(3)
ہر مشن کے دوران طالبان جانتے تھے کہ میں اوپر طیارے میں اُن کا ایک ایک لفظ سن رہا ہوں۔ اُنہیں پتہ تھا کہ اُن کے د عوے کہ اُنہوں نے کتنے امریکی ماردیے ہیں، یااُن کے پاس کتنے آرپی جی ہیں، یا وہ کب اور کہاں آئی ای ڈی نصب کریں گے، مجھے سنائی دے رہے ہیں۔ لیکن اس تمام سماعت کے دوران میں ایک بات نہیں سن رہا تھا۔ وہ بات مجھے آخر کار سمجھ آگئی کہ وہ احمقانہ گفتگو مذاق نہیں تھی۔ وہ ایسا کرتے ہوئے خود کو بوریت سے بچاتے تھے۔ وہی بوریت جو تواتر کے ساتھ پیش آنے والے ایک جیسے واقعات، ایک جیسی جنگ کی وجہ سے میں بھی محسوس کررہا تھا۔ جنگ اور جگہ بھی وہی، حملہ آور بھی وہی۔ لیکن فرق یہ تھا کہ وہ جلد ہی گھر چلے جاتے تھے جو شاید قریبی گاؤں میں تھانہ کہ چھے ہزار میل دور۔ کھیت میں موجود لوگ ممکن ہے کہ محض کسان ہی ہوں۔ یا عین ممکن ہے کہ وہ حملے کا ثبوت چھپارہے ہوں۔ جو بھی ہو، ہماری گولیوں اور بموں کے نتیجے میں اس گاؤں کے زیادہ تر نوجوان لڑکے طالبان کی صفوں میں جا ملیں گے۔
وہ بلند و بانگ دعوے اور حوصلہ افزائی کیا تھی؟ وہ محض لفاظی نہیں، ایسی پیش گوئیاں تھیں جو پوری ہونے جارہی تھیں۔
جب اتنی سردی ہوکہ جہاد کرنا دشوار ہولیکن آئی ای ڈی نصب کرنی تھی۔ جب اُن کے پاس تیس سال پرانی کلاشنکوف رائفل ہو اور اُن کے مقابلے پر ایک سو ملین ڈالر قیمت کا جنگی جہاز ہواوراُنہوں نے جنگ جاری رکھی ہوئی ہو۔ جب ہم گاؤں سے نکل آئیں تو وہ دوبارہ اس پر قبضہ کرلیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم نے اس میں کیا کیا تھا؟ ہم کہا ں کہاں گئے تھے؟ کتنے افراد مارے گئے تھے؟ حتمی بات یہ ہے کہ طالبان واپس آگئے تھے۔
افغانستان میں میری آخری تعیناتی کے دس سال، اور دنیا کی سب سے امیر، سب سے جدید فوج رکھنے والی ریاست کے جنگ شروع کرنے کے بیس سال بعد طالبان نے پھر افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس حوالے سے جو بھی خوش فہمیاں تھیں کہ شاید طالبان ایسا نہ کرپائیں، یا اُنہیں بہت دیر تک لڑنا پڑے،یہ خوش فہمیاں ایک ہفتے کے اندر اندر اُسی طرح تحلیل ہوگئیں جس طرح طالبان کی یلغار کے سامنے افغان سکیورٹی فورسز۔ خواتین کے حقوق، تعلیم اور غربت کے حوالے سے جو بھی اقدامات اٹھائے گئے تھے، وہ بھی ختم ہوتے جائیں گے۔ جمہوریت، یا اس کا دھندلا سا عکس جو یہاں موجود تھا، وہ اس پہلے جھٹکے میں ہی مٹ چکا۔ یقینا افغانستان میں ”امن“ قائم ہوجائے گا۔ لیکن اس کے لیے باقی اپوزیشن کومغلوب یا ہلاک کرنا ہوگا۔ یہ بات طالبان نے ہمیں بتا دی تھی۔ یا کم از کم مجھے سنا دی تھی۔
اُنہوں نے ہمیں اپنے منصوبوں، اپنے خوابوں اور اپنی امیدوں سے آگاہ کردیا تھا۔ مجھے سنا دیا تھا کہ وہ اپنے ان اہداف کو کس طرح حاصل کریں گے،اور کس طرح اُنہیں کوئی نہیں روک سکے گا۔ اُنہوں نے مجھے یقین دلادیا تھاکہ چاہے وہ مر بھی جائیں، یہ اہداف پھر بھی حاصل ہوجائیں گے۔ اُنہیں یقین تھا کہ اگر وہ نہیں تو اُ ن کے بھائی ایسا ضرور کردکھائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ یہ باتیں کرتے رہے ہوں گے۔
اُن کے الفاظ میرے کانوں نے سنے تھے کہ وہ کس طرح امریکیوں کوہلاک کرتے رہنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے مجھے اپنے منصوبوں کی تفصیل سے بھی آگاہ کردیا تھا کہ وہ کس قسم کے ہتھیار استعمال کریں گے، اُنہیں کہاں استعمال کریں گے اور ا؎ن سے کتنے امریکیوں کو قتل کریں گے۔ اکثر وہ جنگ کے دوران مجھے یہ باتیں بتاتے رہتے تھے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ خدا نے چاہا تو یہ دنیا اُن کے تصورات کے مطابق ڈھل جائے گی۔ اور اُنہوں نے مجھے بہت واضح طور پر بتادیا تھا جو بہت سے لو گ سننے سے انکار کرتے تھے، لیکن آخر کار میں ان کی یہ بات بھی سمجھ گیا تھا: افغانستان ہمارا ہے۔ (ختم شد)