حالات کس طرف جا رہے ہیں؟
ہماری خود انحصاری کی صلاحیت سلب ہوتی چلی جا رہی ہے ہم اپنے وسائل میں زندہ رہنے کے قابل نہیں رہ پا رہے، ہم اندرونی اور بیرونی ذرائع سے قرض پر قرض لے کر اپنے عمومی معاملات چلا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک اور ایشیا ڈویلپمنٹ بینک، ہم سب سے قرضے حاصل کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں،ہماری ہر حکومت یہ سمجھ کر بڑی دلیری کے ساتھ قرض لیتی ہے کہ واپسی اس کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔قرض کا حجم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب قرض پر سود کی ادائیگی کے لئے بھی مزید قرض حاصل کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ اصل زر کو ری شیڈول کرا کے ہم اپنے قومی معاملات چلا رہے ہیں، ہمارے پاس کوئی طویل مدتی معاشی اصلاحاتی منصوبہ نہیں ہے، ہم اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں،معاملات کو درست کرنے اور ملک کو مستحکم اور پائیدار بنیادوں پر چلانے کی سیاسی خواہش ہی نہیں ہے،ہم گلے سڑے سیاسی نظام کے اسیر ہو چکے ہیں،ہمارے سیاسی اور ریاستی نظام پر اشرافیہ کی گرفت مضبوط ہے اور وہ اپنے مفادات اور مراعات کو ترک کرنے یا کم کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہے۔
دوسری طرف عوام معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں توانائی کے شعبے کے بحران نے تمام معاملات دگر گوں کر دیئے ہیں،بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں نے نہ صرف عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے،بلکہ صنعتی و تجارتی شعبہ جات بھی بحرانی کیفیت سے دوچار نظر آ رہے ہیں، ہر روز سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اور کبھی کیپیسٹی چارجز کی مد میں بجلی صارفین پر اربوں روپے کا بوجھ لادا جاتا ہے۔ حال ہی میں بجلی صارفین سے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 46ارب روپے وصول کرنے کا پلان سامنے آیا ہے، کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 22ارب روپے،ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کی مد میں صارفین سے 10ارب روپے وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بجلی کی قیمت میں 14 ارب روپے دیگر مدات میں وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یہ سب کچھ اپریل تا جون2024ء تین ماہ کے لئے ہو گا۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے یہ معمول کی کارروائی ہے، حکومت سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ بھئی عوام جو بجلی استعمال کر چکے،اس کا بل بھی ادا کر چکے اب اس پر مزید46 ارب روپے کی وصولی کس طرح جائز ہے۔ ویسے بجلی و گیس کے بلوں میں لگنے والے ٹیکسوں کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ استعمال شدہ بجلی اور گیس کی بھاری بھر کم قیمت اپنی جگہ، اس پر مختلف قسم کے ٹیکس چہ معنی دارد؟
توانائی کے بحران نے ہماری صنعتی و تجارتی سرگرمیوں پر شدید منفی اثرات مرتب کئے ہیں، جس کے باعث روز گار کے مواقع نہ صرف کم ہوئے ہیں،بلکہ صنعتوں کی بندش کے باعث بیروز گاری میں اضافہ ہوا ہے،صنعتی کساد بازاری کے باعث ٹیکس وصولیوں کا حجم بھی متاثر ہوا ہے۔حکومت نے اپنے وصولیوں کے ٹارگٹ پورے کرنے کے لئے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے اور پہلے سے ٹیکس زدہ طبقات پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈال دیا ہے،ایسی ناانصافی نے عوامی عدم اطمینان کو بڑھاوا دیا ہے۔
ہمارے ہاں بغیر کسی سرکاری سپورٹس یا پالیسی کے فری لانسنگ کے شعبے نے پَر پرزے نکالنے شروع کر دیئے تھے، نوجوان خودبخود ہی اس طرف راغب ہوتے چلے گئے اور اس طرح اس شعبے نے ترقی کرنا شروع کر دی۔اس حوالے سے حکومتی رویہ سرد مہری کا رہا۔ فری لانسرز کو سہولیات فراہم کرنے، انہیں بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھاوا دینے اور ان کے مسائل کے حل کے لئے حکومتی تعاون یا کاوشیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔یہ سیکٹر خودبخود پرورش پا رہا تھا کہ حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ کا مسئلہ پیدا کر دیا گیا۔اس مسئلے کو دو ہفتے ہونے والے ہیں، کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، عام شہری اذیت کا شکار ہیں، لیکن کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ مسئلہ کیا ہے، کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے کہ معاملات کب ٹھیک ہوں گے،سینکڑوں نہیں لاکھوں فری لائنسرز کا روز گار خطرات میں گِھر چکا ہے۔ ورلڈ بینک کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں 20ممالک کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں سے لوگوں نے ہجرت کرنا پسند کیا ہے ان ممالک میں یعنی ہجرت کرنے والے ممالک میں پاکستان صف ِ اول میں ہے۔2023ء کے دوران یہاں سے16 لاکھ سے زائد افراد نے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کی۔گویا نوجوان نسل یہاں پاکستان میں اپنے حال سے مطمئن نہیں ہے،اِس لئے اپنے مستقبل کے لئے ہجرت کرتی جا رہی ہے،جو نوجوان یہاں کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے مواقع نہیں ہیں۔صنعتی و تجارتی شعبے جمود کا شکار ہیں ان میں افزائش نہیں ہو رہی،روز گار کے ذرائع پیدا نہیں ہو رہے، چھوٹی صنعتیں بند ہو رہی ہیں،لاکھوں کارکنان بیروز گاری کے جہنم کا شکار ہو رہے ہیں،فری لانسنگ کے ذریعے کمائی کرنے والے بھی جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔ حکومت کی طرف سے انہیں کسی قسم کا تعاون نہیں مل رہا ہے،رقوم کی وصولیوں کے لئے انہیں دبئی میں اکاؤنٹ کھلوانے پڑتے ہیں،ہمارے بینکاری نظام میں بیرونی ممالک سے رقوم وصول کرنے کی سہولت نہیں ہے،فری لانسرز پر انٹرنیٹ بندش نے شدید حملہ کر دیا ہے،کروڑوں ڈالرز کا نقصان اپنی جگہ،لگے بندھے کلائنٹ چلے گئے ہیں،حکومت اِس حوالے سے مکمل طور پر بے حس نظر آ رہی ہے۔انٹرنیٹ کی بندش یا خرابی نے تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ عام شہری کی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ای کامرس کا بزنس بھی مشکلات کا شکار ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعے چلنے والا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بھی گڑ بڑ ہو چکا ہے۔ہزاروں نہیں لاکھوں افراد کا روز گار خطرات میں گِھر چکا ہے۔ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی،خلقت اس قضیے کا ذمہ دار کون ہے؟ اور یہ مسئلہ کب حل ہو گا؟ کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے کہ مسئلہ ہے کیا؟ اور کیوں پیدا ہوا ہے؟ ہر چیز شکوک و شبہات میں لپٹی نظر آ رہی ہے۔ عوام کی برداشت کا پیمانہ لیربز ہوا چاہتا ہے،لیکن حکمرانوں اور ذمہ داران کو لگتا ہے رتی بھر پرواہ نہیں ہے ایسے معاملات کیسے چلیں گے۔
دوسری طرف آئی ایم ایف ہمیں سات ارب ڈالر کا طے شدہ قرض کا معاملہ بھی لٹکاتا ہوا نظر آ رہا ہے،سٹاف لیول ایگریمنٹ ہوئے،عرصہ ہو چکا ہے لیکن بورڈ نے ابھی تک اس کی حتمی منظوری نہیں دی ہے،نجانے وہ یہ معاملہ کیوں لٹکا رہا ہے۔حکومت فنڈ کی شرائط پر من و عن عمل درآمد کرتے کرتے عوام کا بُرا حال کر رہی ہے،ٹیکسوں کی وصولیاں دھڑا دھڑ ہو رہی ہیں،عوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر ٹیکس وصولیوں کے اہداف پورے کئے جا رہے ہیں،لیکن فنڈ حتمی منظوری دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ وجہ نامعلوم ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی لمحہ فکریہ ہے،گو ہمارے ادارے دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہے ہیں،لیکن بڑھتی ہوئی دہشت گردی پریشان کن ہے۔ اللہ خیر کرے۔