وزیراعظم کی ترجیحات

وزیراعظم کی ترجیحات
 وزیراعظم کی ترجیحات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم نواز شریف نے چند روز قبل اپنی رائیونڈ کی رہائش گاہ پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں پنجاب حکومت سے کہا ہے کہ وہ میٹرو بس یا اورنج ٹرین ایسے منصوبوں کی طرف ہی توجہ نہ دے، بلکہ عوام کے دیگر حقیقی مسائل حل کرنے کی جانب بھی متوجہ ہو۔ وزیراعظم کی جانب سے یہ ہدایت دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوامی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس خارجہ امور، بین الاقوامی تعلقات،دہشت گردی اور دفاعی معاملات ایسے امور بھی موجود ہیں،اس کے باوجود ان کی عوامی مسائل پر گہری نظر ہے۔ ہمارے نزدیک وزیراعظم کی ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ صوبائی حکومت صحت، تعلیم، بیروزگاری اور غذائی اجناس کی ارزاں نرخوں پر دستیابی کی جا نب بھرپور توجہ دے۔مَیں نے دو تین ہفتے قبل اپنے کالم میں ان مسائل کی نشاندہی کی تھی، جن پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مَیں نے حکومت کی بھارت میں 40 کروڑ افراد سے زائد لوگوں کو راشن کارڈ کے ذریعے 80فیصد کم نرخوں پر اشیائے خوردنی کی سپلائی کا بھی ذکر کیا تھا جو سبسڈی کے ذریعے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے بھارتی عوام کو فراہم کی جا رہی ہیں۔ان اشیاء میں آٹا، چاول، چینی،گھی اور چائے سرفہرست ہے۔ یہ ایسا کچھ ہے کہ اگر مسلم لیگ(ن) کی حکومت بھارت کی طرزپر ایسا کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو یہ حکومت کے ماتھے پر ایسا جھومر ہو گا جس کی چمک کبھی دھندلا نہیں سکتی۔



یہ حقیقت ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ گھر سے ایک دُکھی اور مسائل زدہ ذہن لے کر نکلنے والے شخص کو نہ تو میٹرو بس اچھی لگے گی اور نہ ہی اورنج ٹرین۔۔۔ کسی نے جب ایک بھوکے شخص سے سوال کیا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو بھوکے شخص نے جواب دیا، چار روٹیاں۔ یہ بھی کہاوت ہے کہ رعایا کے مسائل سے غافل ایک بادشاہ کو بتایا گیا کہ گندم کے بحران کے باعث لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی، تو اُس بادشاہ نے ان غرباء کے بارے میں کہا کہ وہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟۔۔۔ لیکن ہمارے وزیراعظم ایسے غافل بادشاہ کی طرح نہیں ہیں، اس لئے انہوں نے حکومت پنجاب کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ابھی چند ہی روز میں38وینٹی لیٹر خراب ہونے کے باعث چلڈرن ہسپتال میں درجنوں بچے ہلاک ہوئے ہیں، کیونکہ ہماری توجہ لوگوں کو صحت، تعلیم اور خوراک کی سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے انہیں شہر میں سفری سہولتیں فراہم کرنے کی جانب زیادہ ہے۔ اس وقت اورنج ٹرین کے منصوبے کے باعث شہر کا 27کلو میٹر کا علاقہ گردو غبار کے طوفان کی زد میں ہے۔ میٹرو بس منصوبے کی تکمیل کے دوران لاہور میں شاید کوئی ایسا ڈی سی او موجود تھا،جو عوام کو گرد و غبار اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچا نے کے لئے کھودی ہوئی مٹی پر پانی پھینکنے کے لئے بلدیہ لاہور کے ٹینکر بھیج دیا کرتا تھا،لیکن موجودہ ڈی سی او کو یہ توفیق نہیں ہوئی، جس کے باعث ڈسٹ الرجی کے مرض میں مبتلا ہزاروں افراد قریب المرگ ہیں یا روزانہ کسی ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں۔ شہر میں اڑنے والی اس باریک مٹی کے باعث لاکھوں افراد کے گلے خراب ہو چکے ہیں اور ان پر کسی ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائی اثر نہیں کر رہی، بلکہ ڈاکٹروں کے گلے خود خراب ہو چکے ہیں۔ منیر نیازی مرحوم نے کہا تھا :


مَیں مسیحا ویکھیا بیمار ترے شہر دا


ڈی سی او کو تو شاید ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹیں لکھنے سے فرصت نہ ملے ؟اِس لئے وزیراعلیٰ ہی اس کی کسی رپورٹ پر لکھ سکتے ہیں کہ سب اچھا نہیں ہے۔اگر آج لاہور میں کوئی فل ٹائم میئر ہوتا تو وہ ڈی سی او سے مٹی پر پانی پھنکوانے کا کام ضرور کرواتا۔ فل میئر کا ذکر مَیں نے اس لئے کیا ہے کہ میئر شپ کے امیدوار خواجہ حسان کے پاس اور کئی محکمے اور میگا پروجیکٹس بھی ہیں: اس لئے وہ کہاں کہاں توجہ دیں گے۔ دوسرے میئر شپ کے امیدوار وزیراعظم و وزیراعلیٰ کے قریبی عزیز عارف حمید بٹ بھی ہیں جو بالکل فارغ ہونے کے باعث میئر شپ کو پورا وقت دے سکتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی لاہور کے ڈپٹی میئر بھی رہ چکے ہیں اور اب وہ خود میئر شپ کے امیدوار ہیں۔ سرکاری عہدے نہ رکھنے کے باعث ان کا دامن بھی کرپشن کے الزامات سے پاک ہے۔ اورنج پروجیکٹ کے چیئرمین خواجہ حسان ہیں، اس لئے وہ میئر بننے سے پہلے اپنے پروجیکٹ کی مٹی کی جانب ہی توجہ فرما لیں تاکہ ہم اسے گڈ گورننس کا کارنامہ قرار دے سکیں۔ محکمہ مال، پولیس ،ایکسائز،ایل ڈی اے، کسٹم، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس میں رشوت کا بازار گرم ہے اور نیب جیسا ادارہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے نقش قدم پر چل رہا ہے کہ جس کے گلے میں پھندا فٹ آ جائے وہی مجرم ہے۔


چند لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بار بار اضافہ کیا جاتا ہے، جبکہ کروڑوں غیر سرکاری افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان سرکاری ملازمین میں ایسے افراد کی اکثریت ہے کہ اگر ان کی تنخواہ ایک ہزار گنا بھی بڑھا دی جائے تو وہ رشوت لینے سے باز نہیں آ سکتے۔ بعض ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں اور جب حکومت بھتہ وصول کرنے والے ان ملازمین سے جان چھڑانے کے لئے نجکاری کی بات کرتی ہے تو ان اداروں کے ملازمین حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور حکومت پھر خاموش ہو جاتی ہے، حالانکہ حکومتیں کروڑوں ووٹروں کی رائے دہی سے وجود میں آتی ہیں، بکھرے ہوئے چند ہزار سرکاری ملازمین کے ووٹ سے نہیں۔ حکومت کو اپنی عوام دوست پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد کروانا چاہئے اور اگر کچھ مفاد پرست ملازمین دھرنے بھی دیتے ہیں تو ان کے دھرنے عمران خان کے دھرنے کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے قبل لینڈ لائن والا ٹیلی فون لگوانا بیٹی یا بیٹے کا رشتہ تلاش کرنے کے مترادف تھا، لیکن آج ایک ٹیلی فون کال پر یہ فون لگا دیا جاتا ہے۔ یورپی ممالک میں سروسز فراہم کرنے والے تمام ادارے نجی تحویل میں ہیں، اس لئے وہ رشوت کے بغیر ہی چند گھنٹوں میں کسٹمر کی ضرورت پوری کر دیتے ہیں۔ رشوت کو کم سے کم کرنے میں نجکاری کا بھی بہت اہم کردار ہو سکتا ہے اور رشوت ختم کرنا اسلامی فریضہ بھی ہے۔

مزید :

کالم -