بلاول کے راستے کی رکاوٹ ۔ صرف پیپلزپارٹی
پیپلزپارٹی کا موڈ بدل رہا ہے۔ بلاول کا موڈ تو پہلے سے ہی خراب تھا۔ وہ تو پہلے دن سے ہی مفاہمت کی پالیسی کے خلاف تھے، لیکن تب ان کے والد مفاہمت کی پالیسی کو چلانا چاہتے تھے۔ ان کی پہلی تقریر بھی جار حا نہ تھی اور کل کی تقریر بھی جار حا نہ تھی۔ ان کی پہلی تقریر نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحادکو ہلا دیا تھا۔ اور آج بھی ان کی تقریر ملک میں سیا سی فضا اور سیاسی انڈر سٹینڈنگ کو ہلا رہی ہے۔ وہ آج میاں نواز شریف کو للکار رہے ہیں۔ وہ کل عمران خان کو بھی للکار رہے تھے، لیکن کل تو سائیں بھی گرجے ہیں۔ اعتزاز احسن تو کافی دنوں سے گرج رہے ہیں۔ وہ تو دھرنے کے دنوں میں گرج رہے تھے، لیکن اب تو سائیں نے چودھری نثار علی خان کو خوب للکارا ہے۔لگتا ہے کہ چودھری نثار علی خان اور پیپلزپارٹی کے درمیان معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے ہیں۔ اس سے پہلے دھرنے کے دنوں میں بھی چودھری نثار علی خان اور اعتزاز احسن کے درمیان بھی جنگ نے ملکی سیاسی ماحول گرما دیا تھا، لیکن تب بھی میاں نواز شریف نے چودھری نثار علی خان کو خاموش رہنے پر مجبور کیا۔
پیپلزپارٹی رینجرز کے اختیارات کا معاملہ سیاسی انداز میں آگے لیجانا چاہتی ہے۔ اسی لئے بلاول نے بھی عوام کی عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے، جبکہ دبئی سے بھی یہی خبر آئی ہے کہ معاملے کو قانون کی عدالت میں نہ لیجانے کا ہی فیصلہ کیا گیاہے۔ تمام اشارے یہی ہیں کہ پیپلزپارٹی قانون کی عدالت سے فرار چاہتی ہے۔ وہ معاملہ کو سیاسی رنگ دینا چاہتی ہے۔
دوسری طرف گو کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا تا دم تحریر آج کراچی جا نے کا پروگرام ہے۔ تا دم تحریر اس لئے لکھ رہا ہوں کہ جو ماحول بن گیا ہے ۔ اس میں وزیر اعظم آخری لمحہ میں نہ جانے کافیصلہ بھی کر سکتے ہیں، لیکن ان کو سیاسی مشورہ یہی دیا جا سکتا ہے کہ وہ کراچی جائیں ۔ اور ان دوستوں کے مشورہ پر عمل نہ کریں جو جلتی پر تیل ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے دورہ کراچی سے قبل ماحول کو گرما کر وزیراعظم کے لئے آپشن محدود کر دیے ہیں۔ اب وزیراعظم کے لئے دو ہی راستے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ رینجرز کے اختیارات پر پیپلزپارٹی کی منطق مان لیں۔ اور دوسرا یہ کہ وہ پیپلزپارٹی کا موقف رد کر کے محاذ آرائی کا اعلان کر دیں، لیکن شاید محاذ آرائی میاں نواز شریف کا آخری آپشن ہو گا اور ان کی کوشش ہو گی کہ کسی نہ کسی طرح معاملہ حل ہی ہو جائے۔
رینجرز کے اختیارات سے قبل دھاندلی کا ایک ایسا معاملہ تھا، جس کا کوئی حل نظر نہیں آتا تھا۔ ایک فریق کنٹینر پر تھا، جبکہ دوسرا اقتدار کے ایوانوں میں۔ ایسا لگتا تھا کہ فریقین کے درمیان مفاہمت کا کوئی آپشن نہیں، لیکن پھر سب نے دیکھا کہ جو معاملہ سڑکوں اور کنٹینر پر حل نہیں ہو سکا وہ قانون کی عدالت میں حل ہوا۔ معاملہ عدالت سے حل ہونے کی ایک اور خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس فیصلہ کو فریقین کے پاس ماننے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہو تا اور تنازعہ کسی حد تک حل ہو جا تا ہے۔
میاں نواز شریف یقیناًاس وقت مشکل میں ہیں۔ ایک طرف سندھ اسمبلی کی قرارداد۔ سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کی مفاہمت۔ اور دوسری طرف اسٹبلشمنٹ۔ کراچی آپریشن ہے، لیکن سندھ کی سیاست میں یہ کوئی نیاموقع نہیں ہے۔ اس سے پہلے جب ایم کیو ایم نے استعفے د یے تھے تب بھی ایک بحرانی کیفیت تھی۔ اگر ایم کیو ایم واقعی پارلیمانی نظام سے باہر چلی جاتی۔ تو سندھ میں بحران شدید ہو جا تا۔ اس لئے اگر ایم کیو ایم کے استعفوں کا بحران سنبھال لیا گیا تھا تو پیپلزپارٹی کا بحران بھی قابو میں ہی رہے گا۔
تاہم سندھ حکومت کی قراداد کی ایک سیاسی اہمیت ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لئے مان بھی لیا جائے کہ اس کی قانونی و آئینی حیثیت مشکوک ہے تب بھی اس کا سیاسی وزن ہی اس کو سنبھالنے کے لئے کافی ہے۔ اس کو بیک جنبش قلم کوئی ایک محکمہ رد کرے۔ یہ سیاسی طور پر درست نہیں لگتا۔ اس سے لگتا ہے کہ ایک محکمہ نے پوری اسمبلی کو رد کر دیا۔ اس لئے اگر وفاق نے سندھ اسمبلی کی قرارداد کو مسترد بھی کرنا ہے تو اس کے لئے ایک آئینی و قانونی راستہ ہونا چاہئے۔ اس لئے اگر وزیراعظم یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بطور ریفرنس بھیج دیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اگر وفاق اس کو خود اپنے طور پر طے کرنے کی کوشش کرے گا تو پیپلزپارٹی کو سیاسی طور پر فائدہ ہو گا۔ اور شاید پیپلز پارٹی یہی چاہتی ہے کہ اس معاملہ کو سپریم کو رٹ سے باہر ہی رکھا جائے تا کہ معاملہ آئینی و قانونی کی بجائے سیاسی ہی رکھا جائے، لیکن میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے بہتر یہی ہے کہ اس معاملہ کو سیاسی ہونے سے بچا یا جائے۔ اور بات کو آئین و قانون کے دائرے کے اندر رکھ کر ہی حل کیا جائے۔ ورنہ معاملہ متنازعہ سے مزید متنازعہ ہو جائے گا۔
جہاں تک بلاول کا معاملہ ہے تو ان کو اپنی سیاسی لانچنگ کے لئے محاذ آرائی کا ایک ماحول چاہئے جو گزشتہ دو سال سے نہیں مل رہا۔ وہ جانتے ہیں کہ جب تک وہ اپوزیشن کی سیاست نہیں کریں گے۔ وہ عوامی پذیر ائی نہیں حاصل کر سکیں گے،لیکن مشکل یہ ہے کہ جب بھی وہ اپنے لئے ایک تقریر سے ماحول بناتے ہیں۔ مفاہمت ان کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اب بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ بالآخر مفاہمت ہی ان کے راستے کی رکاوٹ بنے گی۔ وہ جو چاہ رہے ہیں۔ اس کے لئے ابھی پیپلز پارٹی تیار نہیں، لیکن شاید بلاول تیار ہیں اور ابھی وہ تنہا ہیں۔
