شام:زہران الوش کی ہلاکت ،مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ختم؟
تجزیہ : آفتاب احمد خان
شامی فضائیہ کے حملے میں سپاہ اسلام کے سربراہ زہران الوش کی ہلاکت سے اس تنظیم کی حکومت مخالف مسلح جدوجہد میں تو کمی آنے کا امکان نہیں، البتہ فریقین کے درمیان مجوزہ مذاکرات میں تاخیر کا خدشہ ضرور پیدا ہوگیا ہے۔ یہ امن مذاکرات جنوری میں جنیوا میں ہونا طے پایا تھا۔
زہران الوشی کی جمعہ کے روز ہلاکت کے بعد سے سپاہ اسلام ابھی تک حالت سوگ میں ہے، جبکہ حکومتی حلقوں حتیٰ کہ داعش کی صفوں میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ زہران الوش جہاں حکومت کے لئے پریشانی کا باعث تھے، وہیں داعش بھی انہیں اپنی مسلح جدوجہد میں رکاوٹ محسوس کرتی تھی۔ وہ تنظیم کے ہیڈ کوارٹرز پر شامی فضائیہ کے حملے میں متعدد دیگر کمانڈروں سمیت ہلاک ہوگئے تھے۔ ان میں ان کے حامی گروپوں احرار الشام اور فیلاق الرحمن کے کمانڈر بھی شامل ہیں، وہ سب ایک اجلاس میں شریک تھے۔ شامی فضائیہ کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اس لیے کیا، جبکہ باغیوں کا الزام ہے کہ حملہ روسی طیاروں نے کیا تھا۔ روسی فضائیہ ستمبر سے داعش اور دیگر باغی گروپوں کے ٹھکانوں پر حملے کر رہی ہے۔ زہران الوش زبردست کمانڈر تھے، جنہوں نے دارالحکومت دمشق کی دہلیز پر ہزاروں جنگجوؤں کی کمان کی۔ ان کی ہلاکت کے باعث دمشق کے مضافات سے ہزاروں عسکریت پسندوں اور ان کے خاندانوں کے انخلاء سے متعلق ہونے والے اتفاق رائے پر عملدرآمد کھٹائی میں پڑگیا ہے۔ یہ انخلا ء گزشتہ ہفتے کے روز شروع ہونے والا تھا، جو نہیں ہوسکا۔
سپاہ اسلام کے نمائندوں نے چند روز پہلے اپوزیشن رہنماؤں کی سعودی عرب میں ہونے والی ملاقات میں شرکت کی تھی، اس موقع پر سپاہ اسلام نے پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کی غرض سے سیاسی مذاکرات میں حصہ لینے سے اتفاق کیا تھا جو جنوری میں جنیوا میں ہونے کا امکان ہے، ادھر شام کی حکومت سپاہ اسلام کو بدستور دہشت گرد قرار دے رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے گروپوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی۔ سعودی عرب میں ملاقات اقوام متحدہ نے کرائی تھی اور اس کے نمائندے سٹیفن ڈی سٹورا نے جنیوا مذاکرات کے لئے 25 جنوری کی غیر حتمی تاریخ تجویز کی تھی۔ ان کی رائے ہے کہ شام کی زمینی صورتحال کی وجہ سے مذاکرات کو پٹڑی سے نہیں اترنے دینا چاہئے۔
اپوزیشن جماعتوں نے زہران الوش کی ہلاکت کو سیاسی سمجھوتے کے لئے ہونے والی گفت و شنید کا منہ چڑانے کے مترادف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئے ہیں۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ انہیں روس کی طرف سے جنگ کا سامنا ہے، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ جنیوا مذاکرات سے پہلے دیگر اپوزیشن رہنماؤں کو بھی ہلاک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دریں اثناء سپاہ اسلام نے زہران الوش کی جگہ ایصام البوئے دہانی المعروف ابوہمام کو اپنا سربراہ بنا لیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ صدر بشار الاسد کے خلاف جدوجہد تیز کر دی جائے گی۔ زہران الوش چار سال پہلے سپاہ اسلام کے قیام سے اب تک اس کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کی عدم موجودگی کے باعث مذاکرات کے ذریعے سیاسی سمجھوتے کی راہ مسدود ہوگئی ہے۔