اقوام متحدہ تحفظ انسانی حقوق پر عمل کرائے
اقوام متحدہ کے نو منتخب سیکرٹری جنرل نے، چند روز قبل اپنے عہدہ کا حلف اٹھا لیا ہے، جبکہ اپنی باضابطہ ذمہ داریاں، یکم جنوری 2017ء کو سنبھالیں گے۔ ان کی میعاد عرصہ پانچ سال کے لئے ہو گی۔ انہوں نے حلف اٹھانے کی تقریب کے بعد ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ وہ عالمی امن کے قیام اور بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لئے اپنے منصب کی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کریں گے۔ یہ بیان اگرچہ محض چند الفاظ پر مبنی ہے لیکن اس پر عمل درآمد سے، دنیا کے مختلف خطوں میں، روز بروز کی بدامنی، کشیدگی اور محاذ آرائی سے، نبرد آزما فریقین کو باہمی کشمکش اور جنگ و جدل کے حالات سے اگرنجات دلائی جا سکے، تو بیشک انسانی حقوق اور اقتدار کا بہتر انداز سے تحفظ ہو سکتا ہے۔ اس طرح لاکھوں کی تعداد میں، جارحیت کا شکار بنے لوگوں کی زندگیوں کو بچانے اور بھوک و افلاس کی محرومیوں سے کافی حد تک، چھٹکارا مل سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بلا شبہ، اپنی بھاری ذمہ داریوں کی انجام دہی کا، بخوبی احساس و ادراک ہو، لیکن کسی شعبہ میں مثبت نتائج کے حصول کی خاطر، اس سے منسلک اداروں اور حکام کو، متعلقہ قوانین اور اصولوں کی اہمیت اور ضرورت کا پابند بنایا جائے، کسی کوتاہی اور عدم توجہی کا مظاہرہ کرنے سے ممکنہ حد تک گریز کرنا ہوگا۔ اگرچہ چند بڑی طاقتوں کی اجارہ داری سے، اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ، اپنے وجود میں آنے کے 71 سال بعد بھی، تا حال، اس کے بنیادی مقاصد اور اصولوں پر کاربند ہونے سے، اجتناب کرنے کی ڈگر پر چل رہا ہے یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس عالمی ادارے کے سابقہ بڑے عہدہ داران، اپنی ذمہ داریاں، اس کے منشور کے مطابق ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
نو منتخب یو این سیکرٹری جنرل کو یہ حقیقت بخوبی یادہوگی کہ امریکی انتظامیہ اقوام متحدہ کے منشور پر عمل کرنے کی بجائے، اپنی جارحانہ پالیسیوں کو ترجیح دے کر، بعض بیرونی ممالک کی حکومتیں بھی تبدیل کرنے کی روش میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ ایسا طرز عمل اپنانے کا اختیار صرف مقامی لوگوں اور متعلقہ قانونی اداروں کو ہی حاصل ہے۔ یہ انداز کار، بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے، جب تک اس ظالمانہ رویہ اور اقدامات پر مثبت اور بر وقت، تادیبی کارروائیاں بروئے کار نہیں لائی جائیں گی، اس ریاستی دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔ ستم یہ ہے کہ برطانیہ جیسا مہذب اور قانون و انصاف کے اصولوں کی حمایت کا درس دینے والا ملک بھی، امریکی حکمرانوں کی دوسرے ممالک پر عسکری قوت کے ساتھ حملہ آور ہونے میں کوئی جھجک اور تذبذب محسوس نہیں کرتا۔ اس طرح برطانیہ کی ایک تہذیب یافتہ ریاست کا وقار و احترام، کافی حد تک، مجروح اور داغدار ہو جاتا ہے۔اقوام عالم میں، انسانی حقوق اور اقتدار کے حصول و تحفظ کی سرگرمیاں، ماند پڑ جانے سے، مطلوبہ اثرات اور ثمرات کا ہدف، کئی ماہ یا سالوں کے لئے، آگے چلا جاتا ہے۔ ان حالات میں، مختلف خطہ ارض میں، بد امنی ا ور قانون شکنی کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ انتشار کی اس کیفیت میں، امریکی اور برطانوی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں آمدنی کے ذرائع فروغ پاتے ہیں، اور جنگ و جدل میں ملوث ممالک، بڑی طاقتوں کی سازشوں اور چالبازیوں سے بچنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ ہزاروں یا لاکھوں افراد ہلاک، زخمی اور بے گھر ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ محض خاموش تماشائی بنی رہتی ہے، نئے سیکرٹری جنرل کو، عالمی امن کے قیام اور تنازعات کے حل کے لئے موثر اقدامات کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔