ٹیکنالوجی پرمبنی معیشت اورہماری ذمہ داریاں
گزشتہ دنوںیونیورسٹی آف ہمپشائرکے ماہرین فلکیات نے ایسابلیک ہول دریافت کیاہے جس کی کمیت ہمارے سورج سے لاکھوں گنازیادہ ہے اس دریافت کوماہرین فلکیات تسخیرکائنات کے ضمن میں ایک نہایت اہم پیش رفت قراردے رہے ہیں۔دوسری طرف مریخ جیسے سیارے پربڑے پیمانے پرانسانی آبادکاری کی تیاریوں کاآغازبھی ہوچکاہے ۔حال ہی میں ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈنمارک نے بارش سے بچانے والی ایسی مضبوط پائیدارپلاسٹک اینٹیں تیارکی ہیں جومکانات بنانے کے کام آسکتی ہیں۔ایک طرف تویہ اینٹیں کم خرچ ہونگی تودوسری طرف زلزلوں اورحادثات کے نتیجے میں مکانات کی تباہی کے باوجودانسانی جانوں کیلئے بہت کم خطرناک ثابت ہونگی ۔ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈنمارک کے ماہرین کی یہ ایجادخصوصاََتیسری دنیاکے غریب عوام کیلئے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ایک اورخبرکے مطابق یونیورسٹی آف کیلیفورنیابرکلے کے تحقیق دانوں نے ایسے چھوٹے چھوٹے روبوٹ بھی تیارکرلئے ہیں جو زلزلوں اوردوسری قدرتی آفات کے دوران ملبے تلے افراد کو شناخت کرنے اوران کونکالنے کیلئے نہایت برق رفتاری سے کام کرینگے۔پاکستان میں اکتوبر2005کے خوفناک زلزلے کے نتیجے میں زیادہ تراموات کاسبب بھی یہ تھاکہ ہمارے پاس ملبے تلے دبے زخمی افرادکونکالنے کیلئے ضروری آلات اورٹیکنالوجی موجودنہیں تھے پورے مظفرآبادشہرکیلئے صرف دوکرینیں تھیں جوملبے تلے کراہتے انسانوں کونکالنے کیلئے استعمال ہوتی رہیں اوراس طرح بے شمارافرادبروقت ملبے سے نہ نکلنے کی وجہ سے زخموں کی تاب نہ لاکردم توڑگئے۔یورپ میں بھی آئے دن سمندری طوفان اورزلزلے آتے رہتے ہیں لیکن وہاں طوفان اورزلزلے کی شدت کے باوجود ہلاکتوں کی تعدادنہایت کم ہوتی ہے وجہ صاف ظاہرہے کہ ان ممالک نے اپنی ٹیکنالوجی کے زورپرقدرتی آفات سے حفاظت کاانتظام کررکھاہے اوردن رات اس ضمن میں مزیدپیش رفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہم ابھی تک سائنس اورٹیکنالوجی کووہ اہمیت دینے کوتیارنہیں جوکہ وقت کاتقاضاہے۔ہم آج بھی اپنے بجٹ کابہت کم حصہ سائنس اورٹیکنالوجی پرصرف کررہے ہیں جس کی قیمت ہم آنے والے دنوں میں اپنی معیشت کی مزیدابتری کی صورت میں چکائیں گے ۔دنیابھرکے حکمران اس بات پرمتفق ہیں کہ آنے والے دنوں میں وہی اقوام دنیاپرحکمرانی کرینگی جوسائنس اورٹیکنالوجی میں مہارت رکھتی ہوں۔مقام شکرہے کہ انہی حقائق کے پیش نظرگزشتہ دنوں ہائیرایجوکیشن کمیشن نے پاکستان ٹیکنالوجی کونسل کے نام سے ایک ادارہ قائم کردیاہے جووطن عزیزمیں سائنس اورٹیکنالوجی سے متعلقہ اداروں کے اصول وضوابط ،معیار،نصاب اورانکوعالمی معیارکے مطابق بنانے کیلئے کام کریگا۔ہم سجھتے ہیں کہ پاکستان ٹیکنالوجی کونسل کاقیام پاکستان میں ٹھوس سائنسی پیش رفت کی طرف سفرکانقطہ آغازثابت ہوگا۔ہائیرایجوکیشن کمیشن کے جواں عزم چیئرمین ڈاکٹرمختاراحمدکی ان کاوشوں کوخراج تحسین پیش کرناضروری معلوم ہوتاہے جوانہوں نے اس کونسل کے قیام کیلئے کیں۔اطلاعات کے مطابق کونسل انہی راہنماخطوط پرکام کریگی جومعاہدہ واشنگٹن اورمعاہدہ سڈنی میں موجودہیںیادرہے کہ مذکورہ دونوں معاہدے عالمی سطح پرٹیکنالوجی کے فروغ کے حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔اسی طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں تین عددٹیکنالوجی یونیورسٹیاں بنانے کاکام بھی تیزی سے جاری ہے۔ ڈاکٹرمختاراحمداوران کی ٹیم کے جذبے کوسامنے رکھتے ہوئے ہم امیدکرتے ہیں کہ جلدہی ان یونیورسٹیوں کاقیام عمل میں آجائیگاجووطن عزیزمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگاجس سے ہماری معیشت مضبوط ہوگی۔
یہاں ہم گزارش کرینگے کہ سائنس اورٹیکنالوجی کے میدانوں میں چونکہ ہرلحظہ نئی تبدیلیاں اورجدتیں جنم لے رہی ہیں لہذاان یونیورسٹیوں کے نصاب کونہ صرف یہ کہ عالمی معیارکے مطابق ہوناچاہئے بلکہ نصاب میں ہرسال تبدیلی اورجدت کی ضرورت کوبھی پیش نظر رکھنا ہو گاتاکہ ہم حقیقی معنوں میں ٹیکنالوجی کے میدانوں میں جاری پیش رفت سے استفادہ کر سکیں۔گلو بل انوویشن انڈیکس کے مطابق 141 ممالک میں سے پاکستا ن کا نمبر131واں ہے جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے لیکن ظاہرہے کہ انوویشن یعنی جدت کیلئے مسلسل تحقیق ایک لازمی امرہے اورکسی بھی میدان میں تحقیقی کاموں کیلئے بے پناہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس حقیقت کومدنظررکھتے ہوئے ہائیرایجوکیشن کمیشن نے حال ہی میں ریسرچ کے ضمن میں رکھے گئے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کردیاہے جوہائیرایجوکیشن کمیشن پاکستان کی انتظامیہ کی طرف سے علم دوستی کا بھر پور اظہار ہے۔