سرکاری افسر قائداعظمؒ کے فرمودات پر عمل کریں
علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کو، قائداعظم محمد علی جناحؒ نے عملی جامہ پہنایا۔اب اس کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہر پاکستان کے اولین فرائض میں سے ہے کہ وہ ایمانداری اور اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور پوری دنیا کے انسانوں کے لئے رہبری کا کام کریں۔ ان باتوں کے حصول کے لئے ہمیں قائداعظمؒ محمد علی جناح کے چند ایک ارشادات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا اور ان پر صحیح معنوں پر عمل کرنا ہو گا۔
اسی میں ہی ’’مدینہ ریاست‘‘ کی کلید پنہاں ہے۔ خاص طور پر سرکاری افسران کو تو قائداعظمؒ نے متعدد بار خطاب فرمایا اور اس بات کی تلقین کی کہ بطور خادم، عوام کی خدمت کریں ان کی گفتار اور کردار میں اخلاق کا پہلو، بہرحال نمایاں نظر آنا چاہیے۔
11اکتوبر 1947ء کو سرکاری افسران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’چونکہ حکومت کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری سرکاری ملازمین پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے یہ دیکھنا ان کا فرض ہے کہ اس پر کماحقہ عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔ آپ لوگ ہی عوام کو حکومت کی نیک نیتی کا یقین دلا سکتے ہیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ سرکاری ملازمین اس سلسلے میں ہمیں مایوس نہیں کریں گے‘‘۔
ایک اور موقع پر 25مارچ 1948ء کو فرمایا: ’’لوگ جب آپ سے ملاقات کرکے واپس جائیں تو ان کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ آپ نے ان کی توہین کی ہے، آپ بے دلی سے ملے،آپ خوش اخلاقی سے پیش نہیں آئے۔اگر آپ میرے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کریں گے تو یقین کیجئے کہ آپ لوگوں سے عزت و احترام حاصل کریں گے‘‘۔
جلسہ ء عام ڈھاکہ میں ،21مارچ 1948ء میں ارشاد فرمایا: ’’دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہو سکتا جس کی انتظامیہ غلطیوں سے پاک ہو، لیکن ہماری خواہش اور تمنا یہ ہے کہ ہماری انتظامیہ کم سے کم ناقص ہو، ہم چاہتے ہیں کہ اسے زیادہ مستعد،مفید اور آسان بنائیں‘‘۔ افسرانِ حکومت سے خطاب، پشاور 14اپریل 1948ء میں فرمایا: ’’آپ کو کسی قسم کے سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔
آپ کو کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاستدان کا اثر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ واقعی پاکستان کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو آپ کوکسی طرح کے دباؤکا شکار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ عوام اور مملکت کے پیچھے خادم کی حیثیت اپنا فرض بے خوفی اور بے غرضی سے ادا کرنا چاہیے۔ مملکت کے لئے، آپ کی خدمت وہی حیثیت رکھتی ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہے‘‘۔
افسران حکومت سے خطاب، پشاور 14اپریل 1948ء فرمایاً:’’حکومتیں بنتی ہیں، حکومتیں گرتی ہیں، لیکن آپ لوگ وہیں رہتے ہیں۔ اس طرح آپ کے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری آ جاتی ہے۔
آپ کو اس لئے بھی تکلیف پہنچ سکتی ہے کہ آپ غلط کام کی بجائے صحیح کیوں کر رہے ہیں۔ آپ کو قربانی دینا ہوگی اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور قربانی دیں۔ خواہ آپ بلیک لسٹ ہو جائیں یا پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر دیئے جائیں۔
آپ کی انہی قربانیوں سے حالات بدلیں گے‘‘۔ اسلامیہ کالج پشاور 12اپریل 1948ء فرمایا: ’’یاد رکھئے! آپ کی حکومت آپ کے ذاتی باغ کی مانند ہے۔ آپ کے باغ کے پھلنے پھولنے اور پروان چڑھنے کا انحصار اس پر ہے کہ آپ اس کی کتنی نگہبانی کرتے ہیں اور اس کی کیاریوں اور روشوں کو بنانے اور سنوارنے میں کس قدر محنت کرتے ہیں۔
اسی طرح آپ کی حکومت بھی صرف آپ کی وطن پرستانہ مخلصانہ اور تعمیری کوششوں کی بناء پر ترقی کر سکتی ہے۔ حکومت میں اصلاح کا واحد طریقہ آپ کی بے لوث محنت ہے‘‘۔
امریکی عوام سے خطاب (انٹرویو) فروری 1948ء میں فرمایا: ’’ہماری خارجہ پالیسی کا اصل اصول تمام اقوامِ عالم کے لئے دوستی اور خیرسگالی کا جذبہ ہے۔ ہم دنیا کے کسی ملک یا قوم کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔
ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں، دیانت اور انصاف کے اصول پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔یہ تمام خطابات امورخارجہ اور سرکاری ملازمین اور افسران کے بارے میں تھے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ کس قسم کے حکومت کے اراکین اور افسران۔۔۔ قائداعظمؒ کی نظر میں تھے۔ کیا آج ہم ان تمام باتوں پر عمل کر رہے ہیں یا کہ نہیں؟آیئے! ہم عہد کریں کہ قائداعظمؒ کے نذرانہ عقیدت کے مطابق، نبی اکرمﷺ کے ’’اسوہ حسنہ‘‘ پر عمل کریں گے، تاکہ ان کی اطاعت اور پیروی کماحقہ ادا کی جا سکے۔
اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی دائمی کامیابی کی ’’کلید‘‘ ہے۔ہمارے قائداعظمؒ نے جس عظیم مصلحؐ، عظیم رہنماؐ ، عظیم قانون دانؐ،عظیم سیاستدانؐ،عظیم حکمرانؐ کی طرف رہنمائی کی ہے۔ اس کو حرزِ جاں بنائیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ممکن ہو سکے۔ وزیراعظم پاکستان کو ان اصولوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، قدم بڑھانا ہے۔
عوام، ملازمین، افسران کو عزتِ نفس دینا ہے اور ان سے اسی کی توقع بھی رکھی جا سکتی ہے، جب ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو، بلکہ ان کی ’’خودی‘‘ کی آبیاری کرنا ہے، تاکہ وہ محنت، دیانت، اخلاص کے پیکر بنیں اور ’’مدینہ ریاست‘‘ بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین!