بڑی سیاسی جماعتوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟

بڑی سیاسی جماعتوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟
بڑی سیاسی جماعتوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ، جنہوں نے بقول وزیراعظم عمران خان ، آپس میں باری باری کھیلنے کی رسم ڈالی ہوئی تھی اب جس طرح کے حالات سے دوچار ہیں، اس میں ان کا مستقبل کیا ہے؟ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے وفاق کے علاوہ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں حکومتیں کی ہیں۔ اربوں روپے کے بجٹ استعمال کئے ہیں۔

آج دونوں کے ساتھ صورت حال ان کی قیادتوں، رہنماؤں ، کارکنوں اور بہی خواہوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ ایک ہی سوال گر دش کر رہا ہے کہ مستقبل کیا ہوگا۔ نواز شریف مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔ عمر بھر کی نااہلی کے بعد انہیں قائد بنادیا گیا ہے۔

ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو لیگ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ اگر شہباز شریف بھی سزا پا جاتے ہیں تو پارٹی کی سربراہی کون کرے گا۔ خاندان اس حوالے سے منقسم ہے۔ ایک گروہ نواز شریف کی بیٹی مریم کو سربراہی دینا چاہتا ہے۔

ان کی سزا تو فی الحال معطل ہے۔ نواز شریف تو خود انہیں وزیراعظم کے عہدے کے لئے تیار کر ہے تھے ۔ ان کی سزا اگر بحال ہوجاتی ہے تو پھر کسے آگے لایا جائے گا۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، دونوں میں یہ ہی صورت حال ہے۔ دونوں جماعتوں میں ان کے قیام کے بعد سے نامزدگیوں کا ایسا سلسلہ جاری ہے جس نے دونوں جماعتوں میں سوجھ بوجھ والے افراد کے لئے قیادت یا سربراہی کا راستہ روک رکھا ہے۔ دونوں قیادتوں کو اپنے علاوہ کوئی اور پارٹیوں کی سربراہی کرنے کا اہل ہی نظر نہیں آتا ہے۔ کم و بیش اسی صورت حال سے پاکستان تحریک انصاف بھی دوچار ہے۔ ایم کیو ایم کاتو حشر اس کے حامیوں نے دیکھ ہی لیا کہ وہ لوگ جو کل تک نائن زیرہ پر سر جھکائے حکم کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے ۔

یہ رہنماء بن گئے، لیکن ان ر ہنماؤں کو یہ ابھی تک سمجھ میں ہی نہیں آیا ہے کہ رہنمائی کے طور طریقے کیا ہوتے ہیں۔ ان کی اس طور پر تربیت ہی نہیں کی گئی تھی۔ ایم کیو ایم تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔

اگر قائد نے اپنا با اختیار نائب تیار کیا ہوتا تو ایسی صورت پیدا ہی نہیں ہوتی۔ بشمول حکمران جماعت، ان کی مرکزی کمیٹی بھی ایسے افراد پر مشتمل ہے جو نامزد کئے گئے ہیں۔

عجیب رونا ہے کہ انہیں کارکنوں کی سطح پر ایسے افراد ہی نظر نہیں آتے، جنہیں مرکزی کمیٹیوں میں شامل کر دیا جاتا۔ مرکزی کمیٹیوں کے علاوہ کور کمیٹیوں کی بدعت بھی جاری ہے۔

جو بہت ہی خاص الخاص ہیں یا جن پر اعتماد کیا جاتا ہے وہ کور کمیٹیوں میں شامل ہیں۔ ان سے ہی مشورے کر لئے جاتے ہیں ۔ اگر ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو ان فیصلوں کو نام نہاد منظوری کے لئے مرکزی کمیٹیوں میں سنا دیا جاتا ہے۔ مرحومہ بے نظیر کے دور میں تو مشہور بات تھی کہ ہر معاملہ پر رائے ان کی ہوتی ہے، جس پر سب اتفاق کرتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی گرفتاری کے بعد ان کی زوجہ نصرت بھٹو پارٹی کی سربراہ بن گئی تھیں اور اس کے بعد ان کی صاحبزادی مرحومہ بے نظیر بھٹو نے سربراہی کی ذمہ داری حاصل کر لی تھی۔ مرحومہ بے نظیر کو بھی یہ کسی طور قبول یا پسند نہیں تھا کہ پارٹی میں کوئی اور رہنماء ان کے برابر کی کرسی پر بیٹھے۔ ان کے دور میں تو حال یہ تھا کہ وہ خواتین جو اب اہمیت حاصل کر گئی ہیں وہ ان کی موجودگی میں ان کی کرسی کے پیچھے کھڑی رہا کرتی تھیں۔پارٹیوں میں قیادتوں کا بحران شدت اختیار کرے گا اور یہ دونوں جماعتیں بھی ایم کیو ایم کے تجربہ سے دوچار ہوں گی۔ ایک گاؤں میں نمبر دار کا انتقال ہو گیا، بیٹے نے ماں سے سوال کیا کہ اماں، نمبر دار مر گیا ہے۔

اب نمبر دار کون بنے گا ؟ ماں نے جواب دیا کہ اس کا بیٹا۔ ماں سے پھر سوال کیا گیا کہ اگر وہ بھی مر گیا تو، اس طرح یہ سوال کئی بار دہرایا گیا۔ ایک مرحلے پر ما ں بات سمجھ گئی، اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹا بھلے سارا پنڈ مر جائے تو نمبر دار نہیں بن سکے گا۔

اسی طرح یہ پارٹیاں شخصیات کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ شخصیت کے ہٹنے کے بعد خلاء پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ یہ ہی پاکستان کی سیاست کا بڑا المیہ ہے۔ قائدین نے جو بویا وہ اسے کاٹنے میں مصروف ہیں۔ ایسے وقتوں میں پارٹی سے کہیں زیادہ اپنے آپ کو بچانا مقصود ہوتا ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ ہی سوال گردش میں ہے کہ کیا یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنی قیادت کی گرفتاری اور سزاؤں کے بعد بکھر جائیں گی۔ صوبہ سندھ میں تو یہ اطلاعات بھی زیر بحث ہیں کہ اگر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی کسی طور پر نااہل قرار دئے جاتے ہیں تو مستقبل میں وزیراعلیٰ کون بنے گا۔ سندھ اسمبلی میں تو حکومت میں شامل لوگوں سے پیپلز پارٹی کے اراکین کی اچھی خاصی تعداد ناراض ناراض سی بھی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بائیس اراکین ایسے ہیں جو آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی نااہلی کے بعد پارٹی سے بغاوت کر سکتے ہیں۔ ایسی بغاوت کے بعد پارٹی اپنا وزیراعلیٰ منتخب کرانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی۔ پارٹی کے بہت سارے اراکین تو کسی ایک اشارے پر بھی پارٹی کو آخری سلام کر سکتے ہیں۔

وفا داریاں تبدیل کرنے والے سیاست داں یقین رکھتے ہیں کہ وہ منتخب ہوے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں، کوئی بھی پارٹی بوقت ضرورت ان کی شمولیت پر انہیں خوش آمدید کہنے پر مجبور ہوگی۔

سن ستر کا دور تو ماضی بعید کا حصہ ہو گیا ہے، جب بڑے بڑے سیاست داں، جنہیں یہ زعم تھا کہ وہ منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، عوام کے فیصلے کے نتیجے میں ان کا زعم پانی پانی ہو گیا تھا۔ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کو ڈرائنگ روم کی پارٹی میں تبدیل کر دیا تھا ۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پارلیمنٹ، اسمبلی اور بلدیات کے عہدے بھی خاندانوں کے حوالے کر دئے تھے ۔ یہ خاندان ماضی میں کب کسی کے ہوئے ہیں۔ ان کی گھٹی میں کنونشن لیگ بیٹھی ہوئی ہے۔

ایم کیو ایم کے سوا سب ہی پارٹیوں نے مصلحتوں کے تحت بھان متی کا کنبہ جوڑا ہوا ہے۔ نواز شریف نے بھی پارٹی کے ساتھ ویسا ہی کیا جیسے سرمایہ دار کسی کمپنی میں کیا کرتے ہیں۔ ن لیگ میں ق لیگ کے لوگ شامل ہوئے تھے ۔

حالانکہ اگر وفاداریاں تبدیل کرنے والے لوگوں کو ٹکٹ نہیں دیا جاتا تو بھی ن لیگ دور ابتلاء میں ساتھ کھڑے رہنے والوں کو منتخب کرانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ہندوؤں میں نا خواندہ خواتین برہمن کے پاس جا کر سوال کرتی ہیں کہ آج تاریخ (ہندی میں اسے تتھ کہا جاتا ہے) کیا ہے اور حالات کیسے رہیں گے۔

برہمن اکثر جواب دیتے ہیں کہ کیا تمہیں آسمان کی طرف دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے؟ اس تماش گا ہ میں بھی سیاسی برہمن حالات کا رخ دیکھ کر ہی اپنی سیاست اور مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

مزید :

رائے -کالم -