بھارت میں کیا ہو رہا ہے؟

بھارت میں کیا ہو رہا ہے؟
بھارت میں کیا ہو رہا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


”ترمیمی شہریت قانون“ کی منظوری کے بعد بھارت کی اکثر ریاستوں میں مودی سرکار کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ تھمنے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شا کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس قانون کے خلاف بھارت کے عوام کا یہ ردعمل سامنے آئے گا اور اس احتجاج کو اپوزیشن جماعتیں بھی اس طرح کیش کروانا شروع کر دیں گی کہ مودی سرکار کو ریاستی جبر کا سہارا لینا پڑے گا۔اس وقت بھارت کی اہم اپوزیشن جماعتیں، جن میں کانگرس، ترنمول کانگرس، بہو جن سماج پارٹی، سماج وادی پا رٹی، اور بائیں بازو کی جماعتیں احتجاج میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔مودی سرکار 2014ء سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے جو کچھ بھی کرتی رہی ہے، اس کے خلاف بڑی مزاحمت نہیں ہو پائی۔ بابری مسجد یا رام مندر کا ایشو، تین طلاق، مسلم پرسنل لاء، گائے کشی کے الزام پر ہونے والی قتل و غارت، کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے اور آرٹیکل 370کے خاتمے تک مودی کو کوئی بھی بڑا چیلنج درپیش نہیں تھا، مگر اب ترمیمی شہریت قانون کی منظوری نے مودی سرکار کے خلاف باقاعدہ مزاحمت کو جنم دیا ہے۔ ”ترمیمی شہریت قانون“ کے مسئلے نے نیشنل رجسٹریشن سٹیزن شپ (این آر سی) سے جنم لیا ہے۔نیشنل رجسٹریشن سٹیزن شپ (این آر سی) کی بھارتی ریاست آسام میں خاص اہمیت رہی ہے۔ بھارت کی آزادی کے ساتھ ہی آسام میں غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ موجود رہا ہے۔

اس حوالے سے کئی قوانین بھی بنائے جاتے رہے ہیں، جن میں ”این آر سی“ بھی شامل ہے۔بی جے پی ہمیشہ سے اس قانون کے نفاذ کا مطا لبہ کرتی آئی ہے،کیونکہ بی جے پی کا دعویٰ رہا ہے کہ1971ء کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں پناہ گزین آسام میں آ کر بس گئے تھے اور ان کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ بی جے پی اس خطرے کا بھی اظہار کر تی رہی ہے کہ کہیں آسام میں مسلمان اکثر یت میں نہ آجائیں، اس لئے بی جے پی آسام میں ”این آر سی“ کے قانون کے نفاذ کی بھرپور حمایت کرتی آئی ہے تاکہ اس ریاست سے بڑی تعداد میں مسلمانوں سے ووٹنگ سمیت ہر طرح کے شہری حقوق واپس لے لئے جائیں۔
سپریم کورٹ کے تحت جب کئی سال کی تحقیق کے بعد یہ ثابت ہوا کہ آسام کی ریاست میں 39.9ملین کل آبادی میں صرف19لاکھ کے لگ بھگ افراد ایسے ہیں، جو شہریت ثابت نہیں کر پائے اور ان 19لاکھ میں سے 11لاکھ ہندو اور8 لاکھ مسلمان ہیں تو بی جے پی کو یہ قانون الٹا پڑ گیا۔ ہندو کا رڈ کے دم پر سیاست کرنے والی بی جے پی 11لاکھ ووٹوں سے محروم ہونے جا رہی تھی، دوسری ریاستوں کے ہندو ووٹر بھی اس سے ناراض ہو سکتے تھے۔اسی معروضیت میں بی جے پی نے آسام میں 11لاکھ ہندوؤں کو بھارتی شہریت دینے کے لئے”ترمیمی شہریت قانون“کا بل منظور کرایا، جس کے تحت 2014ء سے پہلے پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے پنا ہ گزینوں کو بھارتی شہریت مل جائے گی،

اگر ان کا تعلق ہندو مت، جین مت،سکھ مت، بدھ مت،عیسائی یا پارسی مذہب سے ہو۔بی جے پی حکومت نے اس قانون کے لئے بظاہر جو جواز دیا، وہ یہ ہے کہ چونکہ پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش میں اسلام کے علاوہ اور کسی مذہب کے پیروکاروں کو آزادی نہیں ہے، اِس لئے ان اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لئے ”ترمیمی شہریت قانون“ منظور کیا گیا ہے۔اگر اس جھوٹے دعوے میں ذرا سی بھی صداقت ہوتی تو پھر سری لنکا میں تامل نسل کے لاکھوں لوگ، جن کا مذہب ہندو مت ہے، ان کو بھی بھارت میں پنا ہ ملنی چاہئے تھی،کیونکہ سری لنکا میں بھی ان تامل ہندوؤں کے حقوق برے طریقے سے پامال ہو تے ہیں۔ دراصل اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ پہلے آسام میں لاکھوں مسلمانوں سے شہریت کا حق چھینا جائے، اس کے بعد اس قانون کو دوسری ریاستوں میں بھی لاگو کر کے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو شہریت کے حق سے بے دخل کر دیا جائے۔”این آر سی“کے قانون کے تحت اپنی شہریت ثابت کرنا بہت مشکل کام ہے۔اس قانون کے تحت شناختی کارڈ یا پا سپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں،بلکہ اپنے دادا اور نانا کی جائیداد کے کاغذات جمع کر وانا ہوں گے۔ظاہر ہے کئی لاکھ افراد کے لئے ایسی شرائط پر پورا اترنا ممکن نہیں رہے گا۔


”ترمیمی شہریت قانون“کے خلاف بھارت گیر احتجاج کے باعث مودی کویہ بیان دینا پڑا کہ ”این آر سی“ کا قانون تو صرف آسام کے لئے ہے،مگر اس سے پہلے وزیر داخلہ امیت شا کئی بار یہ بات کر چکے ہیں کہ آسام کے بعد اس قانون کا اطلاق بھارت کی دوسری ریاستوں میں بھی کیا جائے گا۔یوں بھارت میں سیکولر سوچ رکھنے والا ہر بھارتی اس قانون کی مذمت کر رہا ہے،کیونکہ اس قانون سے بھارتی سیکولر ازم، جس کی ضمانت بھارت کے آئین میں دی گئی ہے، بری طرح سے مجروح ہو گا۔ہندوستان کی جدید سیاسی تاریخ میں ہندو انتہا پسندی کا مظہر ہرگز نیا نہیں۔آزادی سے پہلے بھی سیکو لر سیا ست کی دعویدار انڈین نیشنل کانگرس کے مقابلے میں ہندو مہا سبھا، ابینو بھارت سوسائٹی اور آر ایس ایس ایسی جما عتیں بھی مو جود تھیں، جو اعلانیہ غیر منقسم ہندوستان کو ہندو راشٹر (ریاست) بنا نے کا واضح ایجنڈا رکھتی تھیں۔ ہندو مہاسبھا کے رہنما ونائیک دامو درساور کرنے 1923ء میں باقاعدہ ”ہندو توا“ کا تصور پیش کیا تھا، جس کے مطابق ہندوستان میں رہنے والے ہر مذہب کے انسان کو ہندو تہذیب کے دائرے کے اندر رہنے کا تصور دیا گیا،حتیٰ کہ خود کا نگرس کے اندر بھی سیکو لر ازم اور ہندو انتہا پسندی پر مبنی متضاد رجحانات آزادی سے پہلے بھی مو جود تھے۔ تقسیم سے پہلے سری آرو بندو، لالہ لاجپت رائے،بال گنگا دھر تلک، بپن چندرا پال سمیت بہت سے سیاست دانوں کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، جو انڈین نیشنل کانگرس میں ہونے کے باوجود اعلانیہ سیاست میں ہندو ازم کا بھی کسی نہ کسی اندازمیں پرچار کرتے،حتیٰ کہ 1925ء میں ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی بنیاد رکھنے والا کیشو بالی رام ہے، جو خود بھی کچھ عرصے تک انڈین نیشنل کانگرس میں شامل رہا۔


آزادی کے بعد جہاں ایک طرف وزیراعظم نہرو سیکولر کے حامی تصور کئے جا تے تھے،دوسری طرف ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو آج بھی ہندو انتہا پسند اپنا آدرش قرار دیتے ہیں۔ان چند مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ثابت کرناہے کہ ہندوستان میں آزادی سے پہلے اور اس کے بعد سیاست میں ایک حد تک ہندو انتہا پسندی کا اثر تو ضرور موجود رہا ہے،مگر کلی طور پر ریا ست کا جھکاؤ ہندو انتہا پسندی کی جانب نہیں رہا۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہی تھی کہ ہندوستان میں ہندو قوم پرست جماعتیں کبھی بھی اپنے دم پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں۔ہندو قوم پرستوں کی سب سے بڑی جماعت بی جے پی کو اقتدارحاصل کرنے کے لئے دوسری جماعتوں پر انحصار کرنا پڑتا۔ جب بی جے پی کو 1998ء،پھر 1999ء کے انتخابات میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں تو اٹل بہاری واجپائی کو اپنی وزارتِ عظمیٰ بنانے کے لئے درجن سے زائد ایسی سیاسی جماعتوں کی ضرورت پڑی، جو بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے پر اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ مئی 2014ء میں ہندوستان کی سیا ست میں یوں ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی،جب پہلی مرتبہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی محض اپنے دم پر کامیاب ہوئی اور2019ء میں پہلے سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی،

یوں بی جے پی کھل کر بھارت کو ایک ”ہندو راشٹر“ بنانے کے راستے پر گامزن ہونے لگی۔”ترمیمی شہریت قانون“ سے پہلے بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی کے آگے سیکولر جماعتیں بھی بے بس نظر آ رہی تھیں۔ کانگرس، علاقائی جماعتیں اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی کمزور دکھائی دیتی تھیں، مگر عوام کے احتجاج کے باعث یہ جماعتیں بھی مودی سرکار کے خلاف فعال ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، پوری دُنیا کی نظریں بھارت کے اس احتجاج پر لگی ہوئی ہیں۔ معروف بھارتی دانشور ارو ن دتی رائے کے الفاظ میں بھارت کے باضمیر لو گوں کو یہ با ت یاد رکھنی چاہئے کہ آزاد بھارت میں پہلی سیاسی دہشت گردی کا ذمہ دار ایک انتہا پسند ہندو اور ہند مہاسبھا کا رکن نتھو رام گو ڈسے ہی تھا، جس نے مہاتما گاندھی پر مسلم اور پاکستان نوازی کا الزام لگا کر انہیں 30جنوری 1948ء کو ہلاک کیا تھا۔ ہندوستان آج تک دہشت گردی کے اس پہلے واقعہ کی قیمت چکا رہا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -