پی ٹی آئی کی مظلومیت اور حقیقت
آج ملک میں ایک عجیب سی فضا ء بنی ہوئی ہے۔سیاسی سٹیج کے سبھی اداکاراپنے اعمال اوراپنی روٹی کا حساب دینا پسند نہیں کر رہے۔عشرے بیت گئے،نسلیں جوان ہو گئیں مگر اب تک اختیار اور پیٹ کی بھوک ختم نہیں ہوئی۔”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔بہت نکلے میرے ارماں،لیکن پھر بھی کم نکلے“۔۔سچی بات ہے کہ میدان کے باہر بیٹھ کر ”ہدایت کاری“کرنا بہت آسان،مگر میدان میں کھڑا کھلاڑی ہی جانے ہے اپنا حال اورمخالف کی چال۔بھائی جان!سیدھی سی بات ہے کہ اپناحساب دو اور پھر اپنی راہ لو۔نہ کوئی گلہ اور نہ کوئی ناراضگی۔اللہ اللہ خیر صلہ۔
آج ہمارا ملک تاریخی دور سے گزر رہا ہے جس پرعوام بہت دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں۔جیسے کچھ کہتے ہیں پاکستان کا آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے، ہرطرف لا قانونیت ہے۔کچھ کہتے ہیں جو اقتدار میں آیا، ذلت و رسوائی کے ساتھ گیا۔ان سب باتوں کے باوجود ہمیں یہ افسوس ناک حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے سیاسی حکمران پسندیدہ درباریوں کو نوازنے اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کسی قانون یا اخلاقی اُصول کو مد نظر نہیں رکھتے۔اُن کا ایک ہی من پسندگیت ہوتا ہے ”ہل من مزید“۔پاکستانی سیاست دانوں کا اختیار اور اقتدار سے پیار کبھی بھی دو دن کا نہیں ہوتا بلکہ وہ پیار کے اس رشتے کو نسلوں تک منتقل کر نا چاہتے ہیں۔موجودہ پاکستانی سیاست پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت پچھلے ڈیڑھ دو سال سے اپنی مظلومیت کے گیت گا رہی ہے اُس کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ ہمیشہ عورتوں کی مظلومیت اور بچوں کی معصومیت کو اپنے بیانیئے کا حصہ بنا کر آگے بڑھتی ہے کیونکہ اس جماعت کو علم ہے کہ قوم کی اکثریت اپنی مشرقی روایات کے تقدس کی امین اور داعی ہے چنانچہ اس سوچ کو وہ جماعت اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔اب الیکشن کے دن نزدیک آ رہے ہیں تو اُس جماعت کی جانب سے عورتوں کے ساتھ ساتھ اپنے انتخابی اُمیدواران کو بھی مظلومیت کے لبادے میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مختلف واقعات کو عوام کے سامنے منفی انداز میں پیش کر کے مس گائیڈ کیا جا رہا ہے تاکہ عوامی ہمدردی کو یقینی بنایا جا سکے۔موجودہ سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس بات کا تعین کیا جائے کہ ملک و قوم کی موجودہ سیاسی،معاشی اور اخلاقی گراوٹ کا ذمہ دار کون ہے؟۔وہ کون تھا جس نے پاکستان کو سری لنکا بنانے کی ناکام کوشش کی؟ وہ کون تھا جس نے اپوزیشن کے میثاق معیشت کو رد کیا تھا؟وہ کون تھا جو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرول،ڈیزل اوربجلی کی قیمتوں پر اثرانداز ہوا؟وہ کون تھا جو دوست اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا سبب بنا؟وہ کون تھا جس نے اقتدار میں دوبارہ آنے کے لیے بھرے جلسے میں اہم سرکاری دستاویز کو عام کیا؟وہ کون تھا جس نے اقتدار سے ہٹنے کے بعد ملک کو تباہی کی جانب دھکیلنے کی خاطرآئی ایم ایف کو قرضہ نہ دینے کا مشورہ دیا؟ وہ کون تھا جس کے غلط فیصلوں سے پاکستان دنیا میں اکیلا رہ گیا؟۔ وہ کون تھا جوپچھلے ایک سال سے زائد عرصے سے اس قوم کو سازش کے تحت فوج کے خلاف بھڑکا رہا تھا؟ کون سی جماعت کے ارکان نے نو مئی کو دنگا فساد کیا؟کس سیاسی جماعت کے رہنماء ان حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے بے نقاب ہو ئے؟۔یاد رکھیں! جو بویا جائے گا وہی کاٹنا ہوگا چنانچہ اب اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کی تیاری کرنی چاہیے۔
ایک اور بات جس کا آجکل ہر ٹی وی پر خوب تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ ایک رہنماء پر پابندی اور جماعت پر سختی سے انتخابات کی شفافیت پر حرف آئے گا۔ملکی سیاست کی تلخ حقیقت ہے کہ کبھی بھی ہارنے والے نے اپنی ہار نہیں مانی، نتیجے میں چاہے ملک دو لخت ہوجائے۔ ایک سیاسی جماعت نے ماضی میں عدلیہ کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کے بعد صرف چار حلقوں کو بنیاد بنا کر سارے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا تھا جس کے نتیجے میں تھانوں پر حملے ہوئے،پارٹی کارکن چھڑائے گئے،پی ٹی وی پر حملہ اور پارلیمنٹ ہاؤس پر یلغار کی گئی۔اس بار بھی یہی کھیل کھیلے جانے کی کو شش ہوگی مگر اس بار ریاستی ادارے کسی کو ملکی امن و امان خراب کرنے کی اجازت دینے کے موڈ میں نہیں ہیں چنانچہ اس بات کی پرواہ کیے بغیر الیکشن کے عمل کو آگے بڑھنا چاہیے۔ان الیکشنزمیں دو سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔انتخابات میں مسلم لیگ کی سیاسی حکمت عملی اہم کردار ادا کرے گی مسلم لیگی قیادت جتنی عمدہ سیاسی حکمت عملی کے ساتھ اپنی الیکشن کمپیئن آگے بڑھائے گی اُتنے ہی اُس کی کامیابی کے امکانات بڑھتے جائیں گے جبکہ پی ٹی آئی کے لیے اہم مسئلہ معقول تعداد میں بلے بازوں کا نہ ملنا ہے۔جب مناسب تعداد میں امیدوار ان میدان میں نہیں ہوں گے تو مشکلات میں اضافہ ہوگا جبکہ دوسری طرف انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بھی اہم کردار دادا کرے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کس تعداد میں عوام ان انتخابات میں حصہ لیتے ہیں؟۔ عوام کا جوش و خروش اور بھرپور شرکت انتخابی نتائج کو یکسر تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ آنے والے دن میں ملکی سیاست کے مستقبل کے تانے بانے کافی حد تک واضح ہو جائیں گے۔ پاکستانی سیاست دانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ خُدا کے بندو! ایکدوسرے کو نیچے گرانا بند کرو۔کسی کی ذلت میں تمہاری عزت نہیں۔ عزتوں کا دارومدار،اعمال پر ہے لہذا اپنے اعمال سجاؤ اور زندگیاں سنوارو۔فرمان خداوندی ہے”جو لوگ توڑتے ہیں خُدا کے معاہدے کو،مضبوط کرنے کے بعداور قطع کرتے ہیں اس چیزکو،جس کو اللہ نے فرمایا ملانے کو،اور فساد کرتے ہیں ملک میں،وہی لوگ خسارے والے ہیں“۔