1973ء کے آئین کی تیاری میں پروفیسر غفور احمد کی خدمات
پروفیسر غفور صاحب مرحوم مفتی محمود صاحب کے دوست اور سیاسی رفیق رہے ہیں۔73 ء کے آئین کی تیاری و تشکیل اور ختم نبوت ورسالت کے معاملے میں ان کا بھرپور اور بنیادی نوعیت کا کردار رہا ہے۔
پاکستانی سیاست میں ایسے افراد بہت ہی کم ہیں جن کی پوری زندگی جدو جہد سے عبارت ہو۔جنہوں نے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے ہوں اور جن کا ہر عمل جمہوریت پسندوں کے لیے مشعل ِ راہ ہو،پاکستانی سیاست کے لیے مہدی کا کردار ادا کرنے والی ہستی پروفیسر غفور احمد صاحب کی تھی،ذیل کے مضمون میں ان کی زندگی پر ایک مختصر مضمون پیش خدمت ہے۔
پروفسیر غفور احمد صاحب 11 جون1927ء کو متحدہ بھارت کی ریاست یوپی میں پیدا ہوئے، دینی خدمات ادا کرنے والی سر زمین بریلی میں غفور صاحب جیسے فرد کا پیدا ہونا بلاشبہ اس سرزمین کے لیے ایک اور فخر ہے۔غفور صاحب کی زندگی تواضع وانکساری، فراست ومعاملہ فہمی،عجز و شفقت،خدمت وجہد اور صبر و عزیمت سے عبارت تھی، تقسیمِ ہند کے بعد آپ نے 1949 میں کراچی ہجرت کی اور زندگی کا باقی حصہ کراچی میں گزارا۔
بریلی میں پیدائش،بنیادی تعلیم و تربیت اوران کی مکمل زندگی ان کی اعلی تربیت کی غمازی کرتی ہے۔ انہوں نے بنیادی تعلیم بریلی میں حاصل کی۔1948ء میں لکھنو یونی ورسٹی سے ایم کام کیا اور خود کو تعلیم و تعلم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔
یوں توان کی پوری زندگی تدریسی زندگی ہے۔ لیکن تعلم کی اصل زندگی ان کے ایم کام کے بعد شروع ہوئی، ایم کام میں سند حاصل کرنے کے ایک سال بعد اسلامیہ کالج لکھنو میں لیکچرار کے طور پر خدمات انجام دیں، ایک سال بعد پاکستان ہجرت کرنی پڑی اس لیے لیکچرار شپ چھوڑ کر کراچی میں ایک نجی تجارتی ادارے سے منسلک ہوگئے،بعد میں انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس،جناح انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس اور انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس میں بطور معلم رہے۔ آپ مختلف اوقات میں اردو کالج اور دیگر پروفیشنل اداروں میں بھی پڑھا تے رہے۔
پروفیسر غفور احمد صاحب نے ملکی سیاست میں کلیدی کردار ادا کیا،اس لیے سیاسی میدان کے مختلف تجربات و مشاہدات کو انہوں نے تصنیفی شکل دے کر تاریخ پاکستان کے طالب علموں کے لیے بیش قیمت خزانہ چھوڑا۔ پروفیسر خورشید احمد کے مطابق پروفیسر صاحب کل آٹھ کتابوں کے مصنف ہیں جبکہ وکی پیڈیا ان کو پانچ کتابوں کا مصنف بتاتا ہے۔ایک مدت تک پروفیسر غفورصاحب جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کی سیاسی قراردادیں مرتب کرتے رہے۔پروفیسر خورشید احمد کے بقول مرکزی شوریٰ کی سیاسی قراردادیں مرتب کرنے میں ان کا اہم کردار رہا ہے اور بعد کے آنے والے ذمہ داران پربھی ان کا گہرا اثر پایاگیا۔
پروفیسر صاحب ایک سیاسی شخصیت ہی نہ تھے بلکہ وہ دراصل خود ایک سیاست تھے انہوں نے سیاست کو نیا رخ دیا،مخالفین سے مثالی ربط اور سلوک رہااور20ویں صدی کی سیاست میں ایک پاکباز و خدا ترس انسان کی صورت ابھرے۔ پروفیسر صاحب کی زندگی کے52 سال ملکی سیاسی جدوجہد میں گزرے،ہر دم فعال و بحال رہے، سیاست کے ہر محاذ سے واقف رہے،سیاسی مخالفین پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔
پروفیسر صاحب23 سال کی عمر میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اورپھر جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ملکی سیاست میں حصہ لے کر عملی سیاست کا آغاز کیا اور زندگی کی آخری سانس تک جماعت اسلامی سے منسلک رہے۔پروفیسر خورشید احمد صاحب کے بقول 1944ء میں ان کے دوست انور یار خاں نے مولانا مودودی کی کتاب خطبات دے کر ان کو دعوت دی،”خطبات“ نے ان کی زندگی کو ایک نئی سمت دی اور ان کی زندگی پر خطبات نے گہرے اثرات مرتب کئے۔مولانا مودودی کی تصانیف سے قربت کی بدولت وہ جماعت اسلامی کے قریب ہوئے اور1950ء میں جماعت اسلامی کراچی کے میدان سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 1958ء میں کراچی میٹروپولیٹن کارپورشن کے لیڈر رہے اور ان کی قیادت میں کارپوریشن نے اعلی کامیابی حاصل کی۔1976ء سے 1977ء تک آپ جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہے اور 1979ء میں نائب امیر جماعت اسلامی کی ذمہ داری پر فائز ہوئے۔
جماعت اسلامی جس دعوت کو لے کر اٹھی ہے اس کی راہ میں عزیمت کے بہت سے مراحل آتے ہیں۔خون کی دھار سے لے کر موت کے دارتک کے تمام مراحل میں پروفیسر غفور احمد صاحب جماعت اسلامی کے شانہ بشانہ رہے اور مصائب پر صبر جمیل کے پیکربنے رہے۔جنرل ایوب خان کے دور میں پروفیسر غفوراحمد صاحب اپنے تمام مرکزی شوریٰ کے اراکین کے ساتھ ساڑھے نو ماہ جیل میں رہے۔
جماعت اسلامی کی طرف سے آپ دوبار قومی اسمبلی کے رکن رہے اور حزب اختلاف میں آپ کی نمایاں کارکردگی رہی۔آپ 1970ء سے 1977ء تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔1978ء سے 1979تک وفاقی وزیرِ پیداوار کی ذمہ داری پر بھی فائز رہے۔غفوراحمد صاحب 1978ء سے 1979 تک اور2002ء سے 2005ء تک دوبار سینٹ کے رکن بھی رہے۔
پارلیمانی زمانہ میں پروفیسر غفور صاحب مختلف پارلیمانی تحریکوں وکمیٹیوں میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کرتے رہے۔آپ 1977ء سے 1979ء تک متحدہ جمہوری محاذ (یو، ڈی، ایف) اور پاکستان قومی اتحاد میں جنرل سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے رہے۔1973ء میں اسلامی آئین سازی میں آپ کا نمایاں کردار رہا اور مختلف حلقوں میں آپ کی جدوجہد کو سراہا گیا۔پروفیسر غفور احمد صاحب نے تحفظ ختم نبوت اور نظام مصطفیﷺ کے تحریکوں میں بھر پور کردار ادا کیا۔پروفیسر خوشید احمد،پروفیسر غفور صاحب کے بارے میں ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”سیاسی قوتوں کو منظم کرنے اور متعین مقاصد کے لیے اتحاد قائم کرنے اور ان کی بنیاد پر تحریک چلانے کے باب میں پروفیسر غفور احمد صاحب کا کردار منفرد تھا۔دستور ساز اسمبلی اور پھر سیاسی تحریکات میں ان کے کردارکو دیکھ کرجناب الطاف گوہر اور جناب خالد اسحاق جیسے افراد نے میرے اور میرے علاوہ دسیوں افراد کے سامنے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت میں پروفیسر غفور احمد صاحب جیسے لوگ موجود ہوں تو یہ ملک دن دوگنی ورات چوگنی ترقی کرسکتا ہے۔بلکہ الطاف گوہر صاحب نے تو ڈان کے اپنے ایک مضمون میں ان کو پاکستان کے لیے مطلوب وزیر اعظم تک کی حیثیت سے پیش کیا تھا“۔سو اس اقتباس سے پروفیسر غفور صاحب کی پالیمانی و سیاسی زندگی پر بڑی حد تک روشنی پڑتی ہے۔
طویل خرابیء صحت سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب جہانِ فانی سے جہانِ باقی کی طرف سفر کرنے کے لیے رختِ سفر باندھ رہے ہیں۔وہ3 ماہ سے مسلسل اپنی بیماریوں سے لڑ رہے تھے۔ کارکنانِ جماعت ِ اسلامی،ان کے تمام قدردان اپنے اپنے مشن، اسلامی انقلاب کے لیے کوشاں تھے کہ ایک صدا آئی تحریک ِ اسلامی کی جان،مولانامودودی کے رفیق جناب پروفیسر غفوراحمد صاحب جہاں فانی چھوڑ گئے۔پروفیسر غفور احمد صاحب26دسمبر 2012ء کو رخصت ہوئے۔ ان کی نمازِ جنازہ سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب نے ادا کی۔ان کی نمازِ جنازہ ایم،اے جناح روڈ کراچی پر ادا کی گئی۔ کہیں آنسو تو کہیں عزمِ نو، کہیں سسکیاں تو کہیں دلاسے،کہیں دعائیں تو کہیں آمین کی بلند صدائیں۔ اسی کیفیت میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کو رخصت کیا گیا۔پروفیسر غفور صاحب کے 3 بیٹے اور 6 بیٹیاں ہیں۔
ملکی سیاسی قائدین نے ان کی تعزیت کی،،ان کی وفات پر بڑے بڑے دعائیہ اور تعزیتی ریفرینسز کراوئے گئے۔بلا شبہ ہر ایک کو احساس ہے کہ ایک پاکیزہ سیاسی لیڈر کی رخصت ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔لیکن اس دنیا میں کسی کو بقا نہیں۔انا للہ واناالیہ راجعون (بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے)