واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) امریکہ میں سائنسدانوں نے پرندوں کی بیٹ کو اگلی فلو وباء کو روکنے کے لیے تحقیق کا ذریعہ بنایا ہے۔ پرندوں کی بیٹ، جسے گوانو بھی کہا جاتا ہے، وائرسز کا مرکز ہے اور فلو کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
ڈیلاویئر بے جہاں ہر سال بہار میں تقریباً 25 اقسام کے پرندے آتے ہیں، اس تحقیق کے لیے ایک اہم مقام ہے۔ یہ تحقیق سینٹ جوڈ چلڈرنز ریسرچ ہسپتال کے سائنسدانوں کی ٹیم کر رہی ہے، جو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی مالی معاونت سے چل رہی ہے۔ ڈاکٹر پامیلہ میکنزی اور ان کے ساتھی پیٹرک سیلر 4دہائیوں سے پرندوں کی بیٹ جمع کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر میکنزی نے سی این این کو بتایا، "یہاں ہر طرف قیمتی مواد موجود ہے۔"
نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے وائرولوجسٹ ڈاکٹر رابرٹ ویبسٹر نے سب سے پہلے اس بات کو سمجھا کہ فلو وائرس پرندوں کی آنتوں سے آتا ہے۔ یہ تحقیق ان کی تخلیق ہے اور اگرچہ وہ اب 92 سال کے ہو چکے ہیں اور ریٹائر ہو چکے ہیں، وہ اب بھی ٹیم کے ساتھ شامل رہتے ہیں۔ ویبسٹر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پرندوں کے جسم میں یہ وائرس نظامِ تنفس کی بجائے آنتوں میں بڑھتا ہے اور پرندے اسے پانی میں بیٹ کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔
سنہ 1985 میں پہلی بار ویبسٹر اور ان کی ٹیم نے ڈیلاویئر بے کا دورہ کیا، جہاں 20 فیصد بیٹ کے نمونوں میں فلو وائرس پایا گیا۔ یہ علاقہ اس وقت سے پرندوں میں فلو وائرسز کی نگرانی کے لیے اہم مقام بنا ہوا ہے۔تحقیق کرنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہاں کسی نئے فلو وائرس کی دریافت دنیا کو وباء کے حوالے سے پہلے سے خبردار کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
ڈاکٹر رچرڈ ویبی، جو اب اس منصوبے کی نگرانی کرتے ہیں، اسے فلو وائرسز کی طویل المدتی تحقیق کا ایک منفرد منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا "کسی بھی خطرے، چاہے وہ طوفان ہو یا وباء کی پیش گوئی کے لیے ہمیں موجودہ حالات کو سمجھنا ہوگا۔" ڈاکٹر ویبی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تعاون سے جانوروں میں فلو وائرس کی تحقیق کے مرکز کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پرندوں کی بیٹ کے ذریعے وائرس کی حرکات کو سمجھنا وبا ءکے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔