برقع پوش گناہ
اسلام کی تعلیمات میں گناہ کی کوئی گنجائش نہیں، البتہ گناہ کے درجات موجود ہیں۔ جیسے زنا کی سخت ترین سزا سنگساری ہے، لیکن یہ گناہ آپ کا ذاتی فعل ہو اور اس سے معاشرتی قباحت پھیلنے کا خدشہ نہ ہو تو اس کی سزا خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، جیسا خفیہ گناہ ویسی خفیہ سزا، لیکن اگر آپ نے یہ گناہ چار گواہوں تک پہنچا دیا تو پھر اس کی سزا عوامی سطح پر سنگساری ہے۔ اس کی توجیہہ یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ ”ایک گناہ دوسرے سینہ زوری“ خدا کو پسند نہیں اور ایسے میں توبہ کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے کہ ایک زانی عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے زانی ہونے کا اعتراف کیا۔ آپ نے منہ پھیر لیا۔ اس نے پھر دہرایا تو آپ نے پھر منہ پھیر لیا، جب اس نے چوتھی بار اعتراف دہرایا تو آپ نے فرمایا کہ اب تم پر شرعی حد لاگو ہوگئی، کیونکہ تم نے خود گواہ بنا لئے۔
گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ گناہ سے پہلے اس کا ادراک یا پردہ داری کی جائے نہ کہ سر عام گناہ کیا جائے ، پھر پردہ داری کی جائے اور بعد میں معافی بھی مانگی جائے۔ اب برقع پہن کر عدالت میں آنے کا کیا فائدہ۔ یہ ساری گفتگو ایک بیوہ سیاسی لیڈر کی کارگزاری کے بارے میں ہے، جن کو نہ اپنے عورت ہونے کا پاس رہا نہ بیوگی اور نہ عوامی نمائندہ ہونے کا۔ اگر انسانی رویوں کا تجزیہ کیا جائے تو اس خاتون کا فعل تکبر، بے راہ روی اور سیاسی جاہلیت سے اَٹا نظر آتا ہے کہ اس نے ایک خاتون اہلکار کے ساتھ کس دیدہ دلیری سے غیر اخلاقی، غیر انسانی و غیر سیاسی فعل کیا۔ اس کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالی جائے تو معاشرے کا رویہ بھی بے حسی، بے بسی، بے مروتی اور بدتہذیبی کا مرقع نظر آتا ہے۔ وہاں پر موجود دوسرے سیاسی کارکنوں، اہلکاروں اور پولیس کی خاموشی اس کا ثبوت ہے۔
عدالت عظمیٰ کا بھلا ہو کہ اس نے میڈیا کی مہربانی و جانفشانی کی بدولت اس واقعہ کا سووموٹو نوٹس لیا اور ملزم کو قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ، یوں ہزاروں مظلوم اہلکاروں کی داد رسی کی ، جن کی حیثیت موجود سیاسی بھائی چارے اور بے لگام عوامی اختیارات کی بدولت پالتو غریب گھریلو ملازموں جیسی ہے اور جن کی بس اب تجارت ہی باقی ہے، ورنہ ان میں انسانوں والی کوئی پہچان اس نظام حکمرانی نے باقی نہیں چھوڑی۔ عدالتی سرزنش پر آئی جی صاحب نے اعتراف کیا کہ ان کو بھی جوتیاں پڑتی ہیں۔ یہ آئی جی صاحب کا اعتراف بے بسی ہے کہ بے حسی، اس کا فیصلہ بھی شاید عدالت ہی کرے، کیونکہ ابھی تک وزیراعظم، صدر، سیاسی دیوتا رحمن ملک، چیف منسٹر سندھ خاموش ہیں، جبکہ گورنر سندھ آخری استعفے اور پیپلزپارٹی سے صلح کے بعد زیر زمین چلے گئے ہیں اور نہ جانے کون سی زیر زمین سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن شمشاد صاحب نے بھی اس ناروا سلوک پر نوکری کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ملک کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس کو ایماندار اور بے ایمان ایک ہی قیمت میں پڑتا ہے۔ بے ایمان غلط بات پر بھی اصولوں کے اور جمہوریت کے لئے قربانی کے نام پر ڈٹا رہتا ہے، جبکہ ایماندار اصولوں کے نام پر میدان سے بھاگ جاتا ہے۔ یہی احسن اقدام اپوزیشن لیڈر، پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کی صدارت سے استعفا دے کر کر چکے ہیں۔
دوسری طرف لوگ ڈکیتیوں پر بھی خود کو شہادت کے لئے پیش کرتے پھرتے ہیں۔ اس سے ایک اور بات ثابت ہوتی ہے کہ قوم بہادر لوگوں کی عزت کرتی ہے، بس صرف قوم کی اصولوں پر خاموشی غیر اخلاقی معلوم ہوتی ہے۔ اس کا واضح ثبوت عبدالرحمن ڈکیت کے جنازے میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی شرکت ہے۔ اسی لئے وحیدہ شاہ بھی اب بے شمار لوگوں کی ہیروئن بن سکتی ہے، اگر عدالت اور بچے کھچے اصول پرست اور حب وطن کے دعویداروں نے اس بد تہذیبی کو سزا نہ دلوائی اور ہو سکتا ہے کہ پھولن دیوی کی طرح اس پر فلم بھی بن جائے اور وہ پھولن دیوی کی طرح پارلیمینٹ میں بھی پہنچ جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ پھولن کی طرح کسی غیبی طاقت کے ہاتھوں خود بھی قتل ہو جائے۔عدالت نے اگرچہ وحیدہ شاہ سے ان کے شوہر کی وفات کا افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا، جس طرح مظلوم پیٹنے والی سرکاری اہلکار نہیں، بلکہ ایک استاد کی ٹھکائی و بے عزتی پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ عدالت کو چاہئے تھا کہ وہ ان کے مرحوم شوہر کے لئے دعا بھی کرواتے اور ان کی خدمات کو بھی سراہتے، جو انہوں نے ایسی بیوی کے ساتھ برسوں گزار کر انجام دیں۔ وہ بھی اپنے صبر پر ایصال ثواب کے مستحق تھے۔
اس واقعہ میں بے بسی و بے حسی کا ایک اور زاویہ خواتین اور اساتذہ کے حقوق کی انجمنوں کی خاموشی ہے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر تو بار کے دربار پر قبضوں میں اتنی مصروفیت ہوگئی ہیں کہ وہ اب صرف وکیلوں کو ہی مظلوم سمجھنے لگی ہیں۔ امید ہے کہ یہ بے حسی ان کی وقتی ضرورت و مجبوری ہوگی،نہ معاشرے پر ان جیسے کرداروں کے بل پر چمن ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ خدا ان کو اور چودھری اعتزاز احسن کو اپنے حفظ و امان میں رکھے تاکہ درجے روز بروز بلند ہوں نہ کہ وہ صرف سیاسی سربلند ہوں۔اب معاشرے کی آخری امید، یعنی عدالتوں سے گمان ہے کہ وہ اس ناسور کو ختم کردےں گی،جو سرکاری اہلکاروں اور نظام کو غلاموں اور لونڈیوں کے دور میں لے جاناچاہتا ہے، خدا اس اعتبار کو بدگمانی میں بدلنے سے بچائے، آمین! ٭