این اے 189بہاولنگر سیاست کا محوراور عوام کی محرومی اورمایوسی کامظہرحلقہ، ووٹروں نے امپورٹڈ امیدواروں کوووٹ نہ دینے کافیصلہ کرلیا

این اے 189بہاولنگر سیاست کا محوراور عوام کی محرومی اورمایوسی کامظہرحلقہ، ...
این اے 189بہاولنگر سیاست کا محوراور عوام کی محرومی اورمایوسی کامظہرحلقہ، ووٹروں نے امپورٹڈ امیدواروں کوووٹ نہ دینے کافیصلہ کرلیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (شہباز اکمل جندران، معاونت راﺅ دلشاد احمد بیوروچیف) قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 189 میں ووٹروںنے آئندہ امپورٹڈ امیدواروں کوووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔مذکورہ حلقے میں ہمیشہ باہر سے آنے والے سیاستدانوں نے حکومت کی ۔ متیانہ، وینس، لالیکااور دیگر خاندانوں کے لیے اگلا الیکشن مشکل ہوگا۔ حلقہ این اے 189 ہمیشہ سیاست کا محوراور عوام کی محرومی اور مایوسی کا مظہر رہا ہے ۔اس حلقہ کے عوام کو ہمیشہ امپورٹڈ سیاستدانوں نے بیوقوف بنایا ہے اور سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں ۔ باہر سے آنے والے سیاستدانوں میں متیانہ، وینس، لالیکا اور دیگر خاندانوں کے افراد شامل ہیں۔ اس حلقہ کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھاہے جس کی وجہ سے سوئی گیس کو بہاولنگر پہنچنے میں 65سال کا عرصہ لگا جو کہ اب بھی مخصوص افراد اور مخصوص کالونیوں تک محدود ہے جبکہ حلقہ کے تمام افراد اس سہولت سے تا حال فیض یاب نہیں ہوسکے۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے عوام نے 2008ءکے الیکشن میں کسی امپورٹڈ امیدوار کو ووٹ نہ دینے کی ٹھانی اور بطور امیدوار شہر کے مقامی سید ممتاز عالم گیلانی کو ایم این اے بنوایا، ان کے ساتھ رانا عبد الرو¿ف اور میاں آصف منظور موہل ایم پی ایز بنے، وہ بھی اپنے اپنے انتخابی حلقوں کے رہائشی ہیں مگر عوام الناس کا یہ تجربہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا اور ایم این اے نے مقامی ہونے کے باوجود عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا، البتہ پاسپورٹ آفس کے قیام اور بہاولنگر میں سوئی گیس کی فراہمی کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔ یہ ضرور ہوا کہ صوبائی اسمبلی کے دونوں حلقوں میں ترقیاتی کام ہوئے جن میں بہاولنگر میں کارپٹ روڈز، ہسپتال میں جدید ایمرجنسی یونٹ کا قیام ،بہاولنگر عارفوالا ون وے روڈ،ریسکیو1122،واٹر سپلائی اور سیوریج کا مر بوط نظا م قابل ذکر ہیں ۔یہ تمام کام مقامی ایم پی ایز کے مر ہون منت اور انکی اپنے حلقے سے دلچسپی کا ثبوت ہیں ۔اس حلقہ میں برادریوں کا کافی اثر و رسوخ ہے ،دیہاتی علاقوں میں برادری کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں ۔حلقہ کی بڑی برادریوں میںجوئیہ ، راجپوت، وٹو اور آرائیں شامل ہیں جبکہ بہاولنگر شہر میں قصائی ، تیلی، شیخ ،ملک ، راجپوت اور دیگر قومیں آباد ہیں ۔شہر میں پارٹیوں کا نظریاتی ووٹ بینک دیہات کی نسبت زیادہ ہے۔ اس حلقہ این اے 189 سے 2008 ءکے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے سید ممتاز عالم گیلانی 49,678 ووٹ لیکردوسری بارایم این اے منتخب ہوئے، اس سے پہلے انہوں نے 1988کے انتخابات میں پی پی پی کے ہی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی ان کے مد مقابل مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر اختر علی لالیکادوسرے اور مسلم لیگ (ق) کی بیگم شاہد ہ ستار تیسرے نمبر پر رہیں۔ ان امیدواروں کا تعلق چونکہ ایک ہی جوئیہ برادری سے ہے، اس لئے ووٹ تقسیم ہونے کا بھر پور فائدہ سید ممتاز عالم گیلانی کو پہنچا۔ صوبائی حلقہ پی پی279 سے مسلم لیگ (ن) کے رانا عبدالرﺅ ف 25,659 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ ان کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے راﺅ اعجاز علی خان سابق ایم پی اے دوسرے اور مسلم لیگ (ق) کے سید رشید احمد شاہ تیسرے نمبر پر رہے ۔حلقہ پی پی 280 میاں منظور احمد موہل (مرحوم ) سابق ایم پی اے و ڈپٹی سپیکر پنجاب کا آبائی حلقہ ہے اور وہ اس حلقہ سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ 2008 ءکے جنرل الیکشن میں انکے بیٹے میاں آصف منظور موہل مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 27,080 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ ان کے مد مقابل پاکستان مسلم لیگ (ق) کے میاں ضیا ءاحمد متیانہ دوسرے جبکہ پیپلز پارٹی کے میاں محمد یار ممونکاسابق ایم پی اے تیسرے نمبر پر رہے ۔ انکے علاوہ بھی متعد د امید وار وں نے الیکشن میں حصہ لے کر اپنا شوق پورا کیا۔اب پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے میاں ممتاز احمد متیانہ اورسابق وفاقی وزیر میاں عبد الستار لالیکا مر حوم کے فر زند میاں عالم داد لالیکا نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ میاں ممتاز احمد متیانہ اس حلقہ میں سابق ضلع ناظم ہونے کی وجہ سے کافی ووٹ بینک رکھتے ہیں جبکہ عالم داد لالیکا کی برادری کے ووٹ تو حلقہ میں موجود ہیں مگر وہ اس حلقہ کے رہائشی نہیں جس کی وجہ سے شہر بہاولنگر میں انکی مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔اسکے بر عکس مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر ڈاکٹر اختر علی لالیکا گزشتہ دنوں پی پی پی میں شامل ہو گئے ہیں اور اس حلقہ سے پی پی پی کی جانب سے ممتاز عالم گیلانی، عبدالقادر شاہین کے ساتھ ٹکٹ کے حصول کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں ۔تحریک انصاف کی جانب سے میاں شوکت علی لالیکا امیدوار ہیں ۔اگر آئندہ الیکشن میں بھی دو یا تین جوئیہ برادری کے امیدوار میدان میں ہوئے تو اس کا فائدہ بہر حال دوسرے امید وار کو ہوگا ۔پی پی 279سے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے رانا عبدالر ﺅ ف تو امیدوارہوں گے ہی لیکن مسلم لیگ ہم خیال کے صوبائی جنرل سیکرٹری سید قلندر حسنین شاہ اور حاجی یٰسین صدیقی بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ یادر ہے کہ حاجی یٰسین کے حقیقی بھائی اقبال صدیقی نے بھی 2008 ءکے جنرل الیکشن میں اس حلقہ سے الیکشن لڑا تھا مگر وہ صرف 27 ووٹ ہی حاصل کر پائے تھے اب پیپلز پارٹی کی جانب سے راﺅ اعجاز علی خان اور عبدالقادر شاہین امید وار کے طور پر سامنے آسکتے ہیں ۔ تحریک انصاف کی جانب سے سید احمد ندیم زمان شاہ بھی متوقع امید واروں میں شامل ہوں گے ۔پی پی 279اور این اے 189سے مختلف سیاسی رہنماو¿ں کے مستقبل میں اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونے کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ جن میں راو¿ اعجاز علی خان، میاں شوکت علی خان لالیکا ان جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ شہری حلقوں میں اگر چہ تحریک انصاف ،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ووٹرز کی توجہ حاصل رہے گی تاہم رانا عبدالرﺅ ف یا مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ کسی بھی امید وار اور پی پی پی کے راﺅ اعجاز علی خان کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا، اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ شاہ برادران جو کہ اس وقت مسلم لیگ ق میں ہیں اب کس جماعت میں جاکر اپنی سیاسی جنگ لڑتے ہیں ۔اسی طرح حلقہ پی پی 280 سے آئندہ الیکشن میں بھی میاں آصف منظور موہل مضبوط ترین امید وار ہوسکتے ہیں مگر تا حال وہ والدہ کی بیماری کی وجہ سے حلقہ کے سیاسی منظر نامے سے باہر ہیں اور انکی جگہ موہل فیملی کے دوسرے نوجوان قسمت آزمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ میاں محمد یار ممونکا بھی مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے خواہاں ہیں جبکہ چودھری شہزاد رشید جٹ پیپلز پارٹی کے امید وار کے طور پر سامنے آسکتے ہیں، تحریک انصاف کا کوئی مضبوط امید وار واضح طور پر تا دم تحریر سامنے نہیں آیا، اس لئے یہاں مقابلہ پاکستان لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امید واروں کے درمیان ہی متوقع ہے ۔
این اے 189