ریاست کی اجارہ داری قائم رہنی چاہئے
وزیراعظم محمد نوازشریف نے دہشت گردی کو شکست دینے کی ٹھان لی ہے اور وہ اپنے ہر خطاب میں اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کراچی میں نویں پاکستان ایکسپو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے واضح کیا کہ بندوق صرف ریاست کے پاس ہونی چاہئے، جہاں جہاں بھی ملیشیا ہوگی ،اُسے نہیں چھوڑیں گے، معاشرے کو یرغمال بنانے والوں کا خاتمہ کر دیں گے، فتنہ پھیلانے والی تنظیموں کو بھی معاف نہیں کریں گے۔انہوں نے یقین دلایا کہ نیشنل ایکشن پلان پر کراچی سے خیبر تک عمل درآمد ہو گا اور کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو ادھورا نہیں چھوڑا جائے گا۔ انہوں نے کراچی کے عوام سے وعدہ بھی کیا کہ 2018ء تک کراچی پُرامن شہر ہو گا، وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنا کر ہی دم لیں گے۔ کراچی کاروبار کے حوالے سے مرکزی اہمیت کا حامل ہے وہاں امن ہو گا تو معیشت بہتری کی طرف گامزن ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی راہ میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، جس کا مقابلہ وہ کر رہے ہیں اور خوشی ہے کہ درست سمت جارہے ہیں،آپریشن ضرب عضب کے آغاز کا فیصلہ ہر گز آسان نہیں تھا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان ایک پُرامن مُلک ہے اور بین الاقوامی برادری خصوصاً اپنے ہمسایوں سے پُرامن تعلقات چاہتا ہے تاہم اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی سیالکوٹ ورکنگ باونڈری کے دورے کے دوران انہی خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ کوئی بھی کسی قسم کی خوش فہمی کا شکار نہ رہے، پاکستان بلا اشتعال فائرنگ کا مُنہ توڑ جواب دے گا۔یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے پاکستان کبھی جارحیت کا حامی نہیں رہا ہے، لیکن کسی کی جارحانہ کارروائیوں پر چپ سادھ لینا بھی ہماری سرشت میں نہیں ہے۔بندوق اٹھانا اور اسلحے کے زور پر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہر حال میں تباہی کا باعث ہی بنتا ہے پھر چاہے وہ ایک ملک کسی دوسرے ملک کے خلاف اٹھائے یا اندر موجود شر پسند عناصر اسے ریاست کے خلاف استعمال کریں۔بد قسمتی سے اس وقت پاکستان کو ہر طرف سے ہتھیاروں کا سامنا ہے، سرحد پر بھارت چین نہیں لینے دے رہا تو مُلک میں موجود شدت پسند بھی گولی کے زور پر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کی اس بات سے اختلاف بھی مشکل ہے کہ اگر بروقت ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کر لی جاتی تو آج کراچی میں ایسے حالات نہ ہوتے، مُلک میں دہشت گردی عام نہ ہوتی ۔ پاکستان میں بر وقت موثر فیصلے نہ ہونے کے باعث آج لوگ اس گمان میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ وہ بندوق کے زور پر اپنی بات منواسکتے ہیں،اپنی اجارہ داری قائم کرسکتے ہیں ۔اس بات کا جواب ان لوگوں سے ضرور لینا چاہئے جو اس کے ذمے دار ہیں۔
پاکستان میں 2003ء سے 2015ء تک بیس ہزار سے زائد عام شہری اور چھ ہزار سے زائد سیکیورٹی فورسز کے لوگ جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں، 2015ء میں جس کے اب تک صرف دو ماہ ہی گزرے ہیں اب تک 226عام شہری دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔یہاں پر دہشت گرد تو زور زبردستی اپنی مرضی ہم پر مسلط کرنے پر تلے ہی ہوئے ہیں، لیکن اس کے علاوہ عام آدمی بھی بندوق کے استعمال سے گریز نہیں کرتا، ایک شخص سکندر کا اسلام آباد میں گھنٹوں تک پستول لہرانا اور لوگوں کو سر عام یرغمال بنانے کا واقعہ ابھی تک لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہوا ہو گا۔جگہ جگہ اسلحے کی نمائش کی جاتی ہے، شادیوں پر اندھی فائرنگ کی جاتی ہے، جس کا نشانہ کوئی بھی بن سکتا ہے توکبھی کسی کے گارڈ سیکیورٹی کے نام پرعام شہری پر اپنی بندوق کا منہ کھول دیتے ہیں،لیکن ان سب کوکوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت بھی دو کروڑ سے زائد غیر قانونی ہتھیار موجود ہیں۔اگر ہم دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ان غیر قانونی ہتھیاروں سے بھی جان چھڑانا ہو گی، جس طرح غیر قانونی سموں کی روک تھام کے لئے ان کی تصدیق اور بندش کا سلسلہ جاری ہے ویسے ہی اقدامات غیر قانونی اسلحے کی روک تھام کے لئے بھی ہنگامی بنیادوں پر کرنے چاہئیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مطابق دنیا بھر میں دہشت گردی کی بنیاد افغان جنگ بنی، جس کے بعدپاکستان میں بھی اسلحے کی ریل پیل ہوگئی اور اب دو سے زائد دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اسلحہ سازی کی صنعت موجود ہے اور یہاں سے قانونی و غیر قانونی اسلحہ ملک بھر میں سپلائی کیا جاتا ہے ۔مُلک بھر میں اس کی ترسیل کے لئے طاقتور اور مضبوط نیٹ ورکس نے غیر قانونی اسلحے کی سمگلنگ کامربوط نظام بنا رکھا ہے۔ہم سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایسی لڑائی ہے جس میں کوئی واپسی نہیں ہے، جس میں صرف اور صرف جیت ہی مقصود ہے، اس میں ہار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں ہے کہ بندوق ریاست کا ہتھیار ہے اور وہ ریاست کے پاس ہی رہنا چاہئے، ریاست کی اجارہ داری ہر حال میں قائم رہنی چاہئے۔تاریخ گوا ہ ہے جب بھی ریاست کے علاوہ کسی نے ہتھیار اٹھایا ہے، دنگا فساد ہی بر پا ہوا ہے، انتشار پھیلا ہے اوراس نے صرف اور صرف بربادی اور خانہ جنگی کو ہی دعوت دی ہے۔