وزیر اعظم زیادہ پر اعتماد، ذاتی ملیشیا کا اشارہ کس طرف ہے ؟
تجزیہ :چودھری خادم حسین
وزیراعظم محمد نواز شریف اب زیادہ پر اعتماد نظر آنے لگے ہیں۔کراچی ایکسپو سنٹراور پی اے ایف کی مسرور بیس پر گفتگو کے دوران ملکی اوربیرونی معاملات میں ان کاموقف واضح اور دو ٹوک تھا تاہم یہ امر پھر بھی تشنہ ہے کہ کراچی میں نجی ملیشیا کی جو بات کی وہ اشارہ کس طرف تھا۔ ادھر سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کی خاطر جو اجلاس بلا یا گیا وہ کوئی فیصلہ نہیں کرے۔ پاکستان کے اندر اور خطے میں تیزی سے بدلتے حالات سے ؟؟؟ہو رہا ہے کہ جلد ی اہم پیش رفت سامنے آنے والی ہے۔وزیراعظم کراچی گئے اور جو بات کی وہ اہم تھی کہ گولی صرف ریاست کے پاس ہوگی، کسی ملیشیاکوبرداشت نہیں کیا جائے گا اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے گا۔ کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بنایا جائے گا۔وزیراعظم کے لہجے میں بہت اعتماد تھا تاہم مختلف حلقے ان کے بیان کی الگ الگ توضیح کر رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ لیاری کے حالات ایسے ہیں کہ ملیشیا والی بات حکمران جماعت پیپلز پارٹی پر تو ؟؟؟نہیں آتی۔ اب اور کوئی اسے اپنی طرف لے جائے توالگ بات ہے تاہم مصنوعی اعتبار سے اشارہ دہشت گردگروپوں ہی کی طرف سمجھنا چاہیے۔اس سے یہ تاثر بھی لیا جا سکتا ہے کہ کراچی آپریشن میں اور بھی تیزی آئے گی۔ ادھر یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ وزیرا عظم نے ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے جو اجلاس بلایا وہ کسی خطے یا نتیجے کے بغیر ختم ہوگیا۔ یہ غیرمتوقع نہیں، قمر زمان کائرہ نے پتے کی بات کی تھی کہ آکر پاکستان تحریک انصاف ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ترمیم کے حق میں ہے تو پارلیمنٹ میں آکروو ٹ دے، دوسری طرف خورشید شاہ نے موقف اختیار کیا کہ انتخابی اصلاحات کے لئے بنی کمیٹی کو تیزی سے کام ختم کرنے کے لئے کہا جائے گا اور انتخابی اصلاحات کا پورا پیکج بنا کر منظور کیا جائے تاکہ مسئلہ مستقل طور پر حل ہو تاہم تحریک انصاف اسمبلیوں میں آئے بغیر ترمیم پر اصرار کرتی رہی جو عجیب بات محسوس ہوتی ہے ۔ شاید انہی وجوہات کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اور انتخابات مروجہ طریقے ہی کے مطابق خفیہ رائے دہی سے ہوگا۔ معلوم ہو ا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے مذاکرات بھی ہوں گے اور یہ امکان بھجی ہے کہ حتمی فیصلہ وزیر اعظم محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات میں ہو۔اس وقت سینیٹ میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہے ۔5مارچ کے انتخابات اور سینیٹروں کی ریٹائرمنٹ کی صورت میں بھی پیپلز پارٹی زیادہ خسارے میں نہیں ہوگی اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے ایک دو ووٹ زیادہ ہو سکتے ہیں، ایسی صورت میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لئے دوسری جماعتوں کے تعاون اور منت سماجت سے بچنے کے لئے دونوں جماعتوں کو ان عہدوں کے لئے سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ آصف علی زرداری چیئرمین شپ کے لئے کوشش کریں گے اور چوہدری اعتزازاحسن کے نام پر اتفاق بھی ہو سکتا ہے تاہم مسلم لیگ (ن) حکمران جماعت ہونے کے باعث چیئرمین اپنی جماعت کا چاہے گی جو راجہ ظفر الحق بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ اگلے چند روز میں واضح ہو جائے گا۔ دوسری طرف خطے کی صورت حال کے حوالے سے بھی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں ،وزیر داخلہ چوہدری نثار کے دورہ امریکہ کے بعد ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر امریکہ کے دورے پر ہیں۔ وہاں ان کی ملاقات سی آئی اے کے سربراہ جان برنین سے بھی ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بنیادی مذاکرات دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے ’’انٹیلی جینس شیرنگ‘‘ پر ہوئے تاہم حالات کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے بھارتی مداخلت کے ثبوت بھی ضرور دکھائے ہوں گے ۔ اس کا اندازہ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ وارننگ بانڈری اور کنٹرول لائن کے متاثرہ علاقوں سے ہوتا ہے جہاں انہوں نے واضح کیا کہ بھارتی جارحیت کا پورا پورا جواب دیا جائے گا۔ یہ سب اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ 3مارچ کو بھارتی سیکرٹری خارجہ جے شنکر اسلام آباد آرہے ہیں اور دو طرفہ امور پر بات چیت ہوگی۔ خبر یہ بھی شائع ہوئی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ ہدایت دے کر بھیجا ہے کہ زیادہ متنازعہ امورپربات چیت سے گریز کیا جائے۔دوسرے معنوں میں بھارتی سیکرٹری خارجہ کشمیر اور سیاچن تنازعات پر بات نہیں کریں گے جبکہ پاکستان اسے ایجنڈے کا حصہ کہہ رہا ہے۔ یوں بات چیت میں ڈیڈلاک بھی ہو سکتا ہے ۔ اگرچہ فریقین بچنے کی کوشش کریں گے ۔اس لئے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تنازعات پر ہر دو فریق اپنا اپنا موقف دہرائیں اور اگلے مرحلے سے مذاکرات میں پھر سے بات کرنے کا کہا جائے ۔ اس وقت صورت حال مختلف ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا تنازعات کو آئندہ کے لئے زیر بحث لانے کا کہہ کر تجارت، راہداری اور ویزا کی نرمی پر بات ہوگی اور جو معاہدے ہوئے تھے ان پر غور ہوگا کہ ان پر عمل نہیں ہو پایا تھا۔ بہر حال اس ملاقات اور مذاکرات سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئیں۔ اشارہ