بصد احترام
چار فروری2017ء مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ ’’محبوب ملتان‘‘ سے بلاوا آیا،مَیں راستے میں تھی تو معلوم ہوا کہ ’’بانو قدسیہ‘‘ کو خدا کے گھر سے بلاوا آ گیا ہے، انسان جب سے ہوش و آگہی کی آنکھیں کھولتا ہے وہ اس معمے کا حل ڈھونڈنا شروع کرتا ہے کہ خود انسانی کتاب کا یہ سفر،زندگی اور حرکت کا یہ کارنامہ کیا ہے اور کیوں ہے۔
اول و آخر ایں گُہنہ کتاب افتادست!
ہوائیں دُنیا کے کسی بھی خطے سے چلیں تو ایک حد کے بعد وہ مقام ہوتا ہے جہاں پر نہ مغرب نہ مشرق، نہ شمال اور جنوب ہوتا ہے، وہاں وہ بس ہوا ہوتی ہے؟ جس میں نہ کثافت اور نہ ہی پریشر کے بڑھنے یا کم ہونے کا احتمال تو وہ ہوا ’’فضا‘‘ بن جاتی ہے۔ بانو آپا زندگی کے الجھاؤ کو سمجھتے سلجھاتے چند برسوں سے حالتِ فضاء میں تھیں۔
بانو قدسیہ جس باطنی ماحول، مٹی اور ضمیر کی مالک تھیں وہ بار بار اُن کی شخصیت سے چھلکتا تھا، جیسا کہ ہر شخص کے اندر پیدائشی اور بے شمار انسانی رویئے موجود ہوتے ہیں، جن میں سے باقی ماندہ کو چھوڑکر کے ہم چند کو چنتے ہیں جو ہمیں زندگی کے سفر میں مناسب اور موزوں نظر آتے ہیں۔ بانو قدسیہ جب ’’عشقِ اشفاق‘‘ میں مبتلا ہوئیں تو انہوں نے رواداری اور ایثار کی چادر اوڑھ لی اور پھر رشت�ۂ ازدواج کے اِس تعلق میں اشفاق صاحب باؤلر بھی تھے اور بلے باز بھی، جبکہ بانو قدسیہ وکٹ کیپر اور فیلڈنگ کا کردار ادا کرتے کرتے بالآخر ریفری کی منزل تک پہنچ گئیں۔ آپ کو یقیناًعجیب لگ رہا ہو گا کہ مَیں اتنے عظیم لوگوں اور نامور ہستیوں کو کھلاڑی کہہ کر کیوں بیان کر رہی ہوں۔ یقیناًاس کی ایک معقول وجہ ہے وہ یہ کہ بانو قدسیہ نے ماضی، حال اور مستقبل سب کا سب اشفاق احمد کی گود میں ڈال دیا۔ اب اشفاق احمد منصب اعلیٰ پر تھے اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ ایسے حالات میں کیا کرتے کیونکہ مکمل سپرداری کر دینا ایک کٹھن مرحلہ ہے،لیکن اس سپرداری سے سپردار کیا رویہ رکھتا ہے یہ ایک الگ تیغ دوپیکر ہے بس اشفاق احمدبا تمکین عاشق کے عابدِ دلربا میں مبتلا ہو گئے اور بالآخر وہ بانو قدسیہ سے ’’بانو آپا‘‘ بن گئیں۔ ’’بانو آپا‘‘ بننے کے اس سفرِ زندگی میں بے شمار نشیب و فراز آئے ہوں گے، لیکن اس جوڑے کی ازدواجی زندگی کے سفرِ زندگی کی مثال ریشم کے کیڑے اور شہتوت کے پودے کے تعلق کی مانند ہے، اس تعلق ازدواج کا حاصل شدہ ریشم یا ریشمی پیار ہے جو ساخت میں کٹا دار مگر ہیئت میں نہایت نرم و ملائم، پیش بہا، قیمتی یا باالفاظِ دیگر نایاب قسم کی خوبی یہ کہ ہر دور، ہر معاشرے اور ہر طبقے میں یکساں مقبول و معروف اور ’’محبت زدہ‘‘ رہا ہے۔
مجھے ایک طویل عرصہ اشفاق احمد صاحب اور بانو آپا کی رفاقت صحبت اور ایک چھت کے نیچے کام کرنے کا موقع ملا۔ مَیں نے ان کی رفاقت سے بہت کچھ سیکھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کو مَیں نے اپنی زندگی میں کس قدر اپلائی کیا۔ بانو آپا اُردو سائنس بورڈ میں جہاں ایک طویل عرصہ تک اشفاق احمد نے کام کیا۔
اکثر و بیشتر آپا بھی اُن کے ہمراہ دفتر تشریف لاتی تھیں،لیکن اُن کا مسکن بالائی منزل کا ایک کمرہ ہوتاتھا جہاں پر وہ ہمارے جیسی نئی پود جو بہت کچھ کرنے کا سوچتی تھی ہمیشہ ساتھ بٹھاتیں اور نہ صرف سکھاتیں، بلکہ بہت کچھ سیکھتی تھیں۔ ’’بانو آپا‘‘ کو دیکھ کر ہمیشہ مجھے کانونٹ سکول سرگودھا کی سسٹر مارتھا جیسی برگِ گل جیسی ہستی کا تصور آتا جو نازک اندام ہونے کے باوجود محبت کا استعارہ، خوشبو کا سمندر اور رنگ و بو کا خزینہ تھیں، مگر پھول کی حیثیت اور وقعت تب تک ہی قائم رہتی ہے۔ جب تک وہ ٹہنی پر رہے، اپنے قبیلے سے جڑا رہتا ہے اسے توڑ کر گھروں، گلدستوں یا آرائش کی نذر کر دیں تو اس پھول کی اپنی ٹہنی کی نفی ہو جاتی ہے یوں پھر اس کی صفت اور ذاتی حیثیت میں کمی آ جاتی ہے اب بانو آپا نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ اشفاق صاحب کے ساتھ نہیں، بلکہ اُن کے ماحول اور ایکوسسٹم کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگی پیدا کریں۔ جب ہی تو ان کے رفقاء، دوست احباب سب کے سب سانجھے دار تھے اور جب آپ کی سانجھ ایک ہو تو پھر تصویریں، تقدیریں، تحریریں اور خواہشیں بھی ایک ہو جاتی ہیں، تب ہی تو مردِ ابریشم جیسی مثالی تحریریں سامنے آتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب مَیں اپنے والدین کے ہمراہ اپنی شادی کا کارڈ داستانِ سرائے دینے گئی تو آپا نے کہا’’بہت سے نئے کپڑے، زیورات اور نئے رشتوں کے بنانے کا نام شادی نہیں، بلکہ اِن کے بوجھ میں دب کر نئی شخصیت کے روپ دھارنے کا دوسرا نام شادی ہے‘‘۔ بانو آپا نے اپنی88سالہ طویل زندگی میں تمام رشتوں کو خوب نبھایا۔
وہ والدہ کی خدمت گزار، اپنے اکلوتے بھائی پرویز چٹھہ سے بے انتہا محبت کا اظہار کرتی تھیں اور سب سے بڑھ کر انہوں نے محبت اور عقیدے کو ایک دوسرے میں یوں ضم کر دیا کہ عقیدہ ’’محبت‘‘ اور محبت ’’عقیدہ‘‘ بن گیا۔
ممتاز مفتی، منیر نیازی، قدرت اللہ شہاب اور واصف علی واصف جیسی ہستیوں کو سمجھا، ان سے بہت کچھ سیکھا اور سکھایا۔ اس نازک اندام نے اپنے قلم کی طاقت سے زمانے کو صرف اپنے تجربوں کی بنیاد پر نہیں، بلکہ مشاہدوں کی بنیاد پر بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے اسی لئے تو ’’فٹ پاتھ کی گھاس‘‘، ’’حوا کے نام‘‘،’’ آسے پاسے‘‘ اور ’’پھر اچانک یوں ہوا‘‘ کے عنوانات کو چُنا۔ان کی تحریروں میں اخلاقیات کا درس، انا کی تفسیر، عقیدت و محبوبیّت کے امتزاج کے علاوہ سائنسی تراکیب اور مضامین کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے جیسا کہ ’’راجہ گدھ‘‘ جیسے مشہورِ زمانہ ناول میں انہوں نے حلال و حرام کو نہ صرف شخصی، بلکہ خلیاتی سطح (سلیولرلیول) پر اثرات کے نمودار ہونے کا ذکر کیا۔ وہ ڈی این اے، جینز اورمیوٹیش کو جتنا سمجھیں،انہوں نے اس کا اتنا اطلاق کر دیا۔لیکن میری ذاتی رائے کے مطابق وہ ’’راجہ گدھ‘‘ لکھتے وقت خود بھی بے شمار باطنی کیفیات سے گزر رہی تھیں۔ اُن کو منزل کی ایک دھندلاہٹ نظر آ رہی تھی،لیکن راجہ گدھ کے لکھتے وقت شاید وہ عقل و ادراک کے تقاضوں کے الجھاؤ کو سلجھانے میں زیادہ پڑی رہیں، لیکن وقت نے قوتِ پس پردہ سے اُن کو اُجالے میں لا کھڑا کیا اور یوں وہ سائنس، عقل ادراک اور فہم کی سیڑھی پر چڑھتے چڑھتے اُجالے میں آ کھڑی ہوئیں، وہاں روشنی ہی روشنی ہے۔ گویا ان کی پیاس کو سیراب مل گئی اور سارا الجھاؤ ایک پل میں کھل گیا۔ یوں بانو آپا نے جسم میں روح کو بولنے اور الفاظ میں معنی کو اُبھرتے دیکھ لیا۔یوں بانو آپا ’’صوفی آپا‘‘ کے روپ میں اس دُنیا میں اپنی شناخت چھوڑ گئیں۔
داستان سرائے کو اس کے مکینوں نے آباد کیا، جن میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور ان کے تینوں بیٹوں انیق، انیس اور اثیر کے علاوہ ایک طویل عرصہ تک خدمت گزاران بھی مستقل بنیادوں پر جڑے رہ کر اس ’’سرائے‘‘ کو آباد رکھے ہوئے تھے۔ جہاں پر کوئی بھی دیارِ داستان کے مخزن میںآ سکتا تھا اور آخر میں ’’نازلی‘‘ کے صحیح معنے مجھ پر اُن کے جانے کے بعد آشکار ہوئے۔ دُنیا میں وہ واحدہستی تھیں جو مجھے ’’نازلی‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔