نیپال سے خوشگوار ہوأوں کی آمد آمد!
کسی بھی ملک کے ہمسائے ہمیشہ سے اس کے استحکام یا عدم استحکام میں ایک اہم رول ادا کرتے آئے ہیں۔ اہلِ برطانیہ نے دو اڑھائی سو سال تک برصغیر کے مختلف حصوں پر حکومت کی۔ اور 1857ء کی جنگ آزادی (جس کو انگریز غدر کا نام دیتا ہے) کے بعد سے لے کر 90برس تک (1947ء میں تقسیم برصغیر تک) تو ہندوستان کے طول و عرض پر مسلسل برطانوی پرچم لہراتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کے ہمسائے میں کوئی بھی ایسا دوسرا ملک نہیں تھا جو برطانوی اقتدار کو چیلنج کر سکتا۔ اس لئے ان افرنگیوں نے دل کھول کر سونے کی چڑیا کے پر نوچے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ 1945ء میں جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو انگریز نے یہاں سے نکلنے میں کیوں جلدی کی۔ وہ اپنی شہرت کو مزید داغدار نہیں کرنا چاہتا تھا۔
لیکن اس کو طوعاً و کرہاً جب ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا تو اس نے اس بات کا بطورِ خاص اہتمام کیا کہ دونوں نو آزاد شدہ ممالک کے ہمسائے ایسے ہوں جو ان دونوں کو چین سے نہ بیٹھنے دیں۔۔۔ پاکستان کو دیکھئے۔۔۔ انڈیا، چین، افغانستان اور ایران ہمارے ہمسائے ہیں۔
ان چاروں ہمسایوں نے کبھی بھی اہلِ پاکستان کو چین کی نیند سونے نہ دیا۔ ایک ہمسایہ (بھارت) تو ازلی دشمن بن گیا۔ دوسرا (چین) 1971ء کی جنگ کے بعد ہمارا دوست بنا اور باقی دو (ایران اور افغانستان) کبھی ہمارے حق میں رہے اور کبھی ہمارے خلاف۔آج تک یہی صورتِ حال ہے۔ اس بات کو چھوڑیں کہ وجوہات کیا تھیں، میں تو حقائق کی بات کر رہا ہوں۔
انڈیا ہم سے بہتر پوزیشن میں تھا۔ اس کے ہمسایوں میں مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان، نیپال اور سری لنکا تھے۔ان چاروں میں سے کوئی ایک ملک بھی رقبے، آبادی اور فوجی قوت کے لحاظ سے ایسا نہ تھا جو انڈیا کی ہمسری اور برابری کا دعویٰ کر سکتا ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ 1972ء میں اس کے مشرق (بنگلہ دیش)، شمال (نیپال) اور جنوب (سری لنکا) میں جو ممالک تھے وہ گویابرگد کے پیڑ کے تینوں طرف چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں تھیں۔
البتہ اس کے مغرب میں پاکستان ایک ایسا ملک تھا جو اپنے حجم اور قوت سے کہیں بڑھ کر صرف عزم و استقلال اور اپنی عسکری دانش و بینش کے طفیل بھارت کی نگاہوں کا کانٹا بنا رہا۔ یہ کانٹا ابھی تک موجود ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ موجود رہے گا!شری نریندر مودی اور ان کے پیشرو پاکستان کے مزاحمانہ استحکام کے سامنے دل ہی دل میں اس شعر کا ورد کرتے رہے ہیں:
صد خار زارِ خارِ مغیلاں تک آئے ہیں
ہم لوگ جب بھی فصلِ بہاراں تک آئے ہیں
آج مارچ 2018ء کا انڈیا شائد بزعمِ خویش امریکی چھتری کے سائے تلے پاکستان کے خارزارِ خارِ مغیلاں(کیکر کے درختوں کا جنگل) سے چنداں خائف نہیں لیکن معلوم ہوتا ہے بساطِ عالم پراس کے مہرے پٹنے کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔
بظاہر آج کا انڈیا، ستمبر 1939ء کے یورپ سے مختلف معلوم نہیں ہوتا۔ اس وقت کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ پہلی عالمی جنگ کا شکست خوردہ جرمنی صرف پون برس (ستمبر 1939ء تا مئی 1940ء) میں سارے یورپ پر قابض ہو جائے گا اور صرف برطانوی جزیرہ ہی ایک ایسا چھوٹا اور حقیر سا ملک ہوگا جو ہٹلر اور اس کی بلز کریگ کے سامنے کھڑا لرزاں و ترساں ہو گا۔
آج کے بھارت کے دائیں طرف بنگلہ دیش ہے جس پر اس نے 1971ء میں غاصبانہ قبضہ کیا، شمال میں نیپال ہے جو ایک بستہ بہ زمین ملک ہے اور جنوب میں سری لنکا ہے جو مہان ہندوستان کی پلی پلائی مرغی کا ایک ’’انڈہ‘‘ معلوم ہوتا ہے۔
مغرب میں پاکستان ہے جو اپنے داخلی خلفشار میں گو بُری طرح گھر چکا ہے اور اس کا مستقبل گومخدوش نظر آ رہا ہے۔۔۔ لیکن ذرا ٹھہریئے۔۔۔ اس سکے کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجئے۔
آیئے آج انڈیا کے چاروں کھونٹ نظر دوڑاتے ہیں۔۔۔ سب سے پہلے اس کے مغرب میں پاکستان کو لیتے ہیں۔ میں ایک بار پھر وہی الفاظ دہرانا چاہوں گا جو پہلے دہرا چکا ہوں کہ یہ انڈیا کے لئے ایک بڑا خارزار ہے اور وہ بھی ببول اور کیکر کے نوکدار اور بڑے بڑے کانٹوں سے بھرا ہوا۔۔۔ پاکستان کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جوہری ببولوں کے اس جنگل میں ایک سو سے لے کر ڈیڑھ سو تک جوہری کیکر موجود ہیں جن کے کانٹوں کو انڈیا کے طول و عرض میں بچھانے کے لئے میزائلوں کی بڑی بڑی کمانیں بھی موجود ہیں۔ علاوہ ازیں ایک ایسی فوج ہے جو 20برس تک مسلسل جنگ آزمودگی کرتی رہی ہے اور جس کے افسروں اور جوانوں کا نعرہ ہے:
جنگ آزمودہ ہم ہیں، جنوں آزمودہ ہم
اس دود مانِ جنگ کے ہیں نورِ دیدہ ہم
اس کے باوجودانڈیا کے آرمی چیف جنرل بپن روات جب سے انڈین آرمی کی مسندِ قیادت پر فائز ہوئے ہیں، ایک سے ایک نئی بڑ ہانکنے سے باز نہیں آتے۔
کبھی فرماتے ہیں انڈین آرمی ایک ہی وار میں چین اور پاکستان کی افواج سے نمٹنے کی ’’صلاحیتوں‘‘ سے مالامال ہے۔ کبھی اپنی وزیرِ دفاع شریمتی نرملا رامن کے منہ میں اپنی زبان رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان آرمی نے حال ہی جموں کے نزدیک جس سبحان کیمپ پر حملہ کروایا ہے، اس کا ’’کرارا‘‘ جواب پاکستان کو ضرور دیا جائے گا اور جلد دیا جائے گا۔
ابھی دو روز پہلے ایک اور درفطنی بھی چھوڑی ہے کہ آسام میں بی جے پی کا مقابلہ ’’آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ‘‘ (AIUDF) کر رہی ہے جس میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور پاکستان اور چین دونوں مل کر بنگلہ دیشی مہاجرین کو انڈیا کی اس شمال مشرقی ریاست میں بڑی تعداد میں داخل کرکے وہاں کے سیاسی توازن کو مسلمانوں کے حق میں کر رہے ہیں۔
آسام کی ریاستی اسمبلی میں 2006ء کے الیکشنوں میں مسلمانوں کی 10نشستیں تھیں اور آج 18ہو چکی ہیں اور بقول جنرل روات، یہ سب کارستانی پاکستان اور چین کی ہے۔۔۔دوسرے لفظوں میں انڈیا کا دایاں بازو (بنگلہ دیش) بھی جو آج بظاہر انڈیا کی گود میں ہے، آنے والے کل میں اس کی گودسے اچھل کر باہر نکل جائے گا اور رانوں پر دو ہتڑمار کرکے میدان میں آکودے گا۔
جہاں تک جنوب میں سری لنکا کا تعلق ہے تو وہاں پہلے ہی سے پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعاون کے جذبات موجود ہیں۔ برسوں پہلے سے چین، سری لنکا میں ایک بحری مستقر (Naval Base) تعمیر کر رہا ہے جس پر انڈیا نے بہت واویلا مچایا ہوا ہے اور آج بھی صورت حال ویسی کی ویسی ہے۔ انڈیا کو معلوم ہے کہ اس کے جنوب میں جوبحرہند ہے وہ ’’ہندوؤں کا سمندر‘‘ نہیں اور اب توچین کے زیرِ آب اور بالائے آب بحری بیڑے بھی سارے بحرہند میں گشت لگا رہے ہیں۔
امریکہ، جاپان اور انڈیا مل کر ہر سال (مالابار کے نام سے) بحرہند میں بحری مشقیں کرتے رہتے ہیں لیکن انڈیا کو یہ حقیقت بھی معلوم ہے کہ اس کے دوتین طیارہ برداروں میں سے کسی کو بھی بحیرۂ عرب سے گزر کر چاہ بہار کی اس بندرگاہ تک جانے کی توفیق نہیں ہوگی جو گزشتہ دنوں ایران اور انڈیا نے مل کر اَپ گریڈ کی ہے اور جس کا بہت پرچار کیا جا رہا ہے۔ چین گوادر کو اس لئے ڈویلپ نہیں کر رہا کہ کل کلاں کوئی امریکہ یا انڈیا اس کو بحرہند کے بین الاقوامی پانیوں میں چیلنج کر سکے گا۔۔۔ جن لوگوں نے ہاتھی پال رکھے ہوتے ہیں ان کی حویلی کے گیٹ بھی نہائت وسیع و عریض ہوتے ہیں!
اب ہم انڈیا کے شمال میں نیپال کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ نقشے پر دیکھیں تو نیپال، انڈیا کی شمالی سرحد تشکیل دیتا ہے۔ اس ملک کی شکل ایک مستطیل کی سی ہے جس کا طول، اس کے عرض سے پانچ چھ گنا زیادہ ہے۔ اس کی آبادی تین کروڑ نفوس کے لگ بھگ ہے۔
یعنی پاکستان کی آبادی کا ساتواں حصہ اور اس کا رقبہ بھی پاکستان کے رقبے کا تقریباً ساتواں حصہ ہے(57ہزار مربع میل تقریباً)۔۔۔ دنیا کی 10بلند ترین چوٹیوں میں سے 8چوٹیاں نیپال میں واقع ہیں جن میں بلند ترین چوٹی ایورسٹ بھی ہے۔ اس کی ٹیرین کوہستانی، برفانی اور نیم میدانی ہے۔ اس کی فوج کے گورکھے دنیا کے دلیر ترین فوجیوں میں شمار ہوتے ہیں۔
لیکن اس کی ایک معذوری بھی ہے کہ یہ ایک لینڈ لاکڈ (Land Locked) ملک ہے جس کی روزمرہ زندگی کا سارا دار و مدار انڈیا پر ہے۔ مٹی کے تیل کی ایک بوتل تک بھی انڈیا سے آتی ہے، کیونکہ اس کے تین طرف انڈیا ہے اور چوتھی طرف چین ہے اور یہ چوتھی طرف ہمالیائی چوٹیوں اور دشوار گزار کوہستانی نشیب وفراز سے معمور ہے۔
آج تک اس راہ سے کوئی بھی حملہ آور ہندوستان پر یلغار نہیں کر سکا۔ اکتوبر 1962ء میں چین نے جب انڈیا پر حملہ کرکے اسے عبرتناک شکست دی تھی تو وہ بھی شمال کی راہ سے نہیں، بلکہ شمال مشرق کی راہ سے (NEFA) سے اتر کر دی تھی اور آسام میں آکر گوہاٹی تک کو آبادی سے خالی کروا لیا تھا۔۔۔ اب پاکستان اور چین کے لئے خوش آئند خبر یہ ہے کہ چین نے کھٹمنڈو تک پکی سڑکیں تعمیر کر لی ہیں۔ اب نیپال کو انڈیا پر تکیہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ نیپال میں اس وقت جو حکومت حال ہی میں برسراقتدار آئی ہے وہ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے، بھارت کی مخالف ہے اور چین کی دوست ہے۔
نیپال میں فیڈرل جمہوری نظام حکومت قائم ہے جس میں ماضی میں انڈیا کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے۔۔۔ وزیراعظم کا نام کھادگا پرساد اولی (Khadga Parasad Oli) ہے۔ یہاں کئی علاقائی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں، جن میں اردو بھی شامل ہے۔
2008ء تک نیپال میں بادشاہت تھی جس کی جگہ اب فیڈرل جمہوریت نے لے لی ہے۔ فیڈرل ڈیمو کریسی ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں اقتدار دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، ایک حصہ مرکزی حکومت کے پاس ہوتا ہے اور دوسرا ریاستی حکومتوں کے پاس۔۔۔ پارلیمانی جمہوریت اور فیڈرل جمہوریت میں جو فرق ہے اس کی زیادہ تفصیل کا یہ محل نہیں۔
جیسا کہ اوپر لکھا گیا ،نیپال میں انڈیا کا اثرورسوخ ماضی میں بے پناہ تھا کیونکہ اس کی بقاء کا دارومدار ہی انڈیا کی مدد پر تھا۔لیکن 2015ء میں انڈیا نے نیپال کی معاشی ناکہ بندی کر دی۔ بازار خالی ہو گئے اور لوگوں کو لاتعداد مشکلات کا سامنا ہوا۔ ایسے میں مسٹر اولی نے شمال میں چین سے تعلقات استوار کئے۔
گزشتہ برس مئی میں نیپال نے چین کے ’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ منصوبے میں شرکت کر لی اور چین نے نیپال میں سرمایہ کاری کے فلڈ گیٹ کھول دیئے۔ دوسری طرف مودی نے نیپال کو سزا دینے کے لئے اس کی امداد میں 50 فیصد کمی کر دی۔
اب وزیراعظم اولی (Oli) اپنے اتحادی پراچندا (Prachanda)سے مل کرچینی کمیونسٹ خیالات کا سب سے بڑا مویّد بنا ہوا ہے اور انڈیا اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہا ہے۔
مودی نے یہی چال کشمیر میں بھی چلی۔ اور کشمیریوں پر عرصہ ء حیات تنگ کر دیا۔ اب کشمیر کی ریاستی پولیس اور وزیراعظم محبوبہ مفتی بھی مودی حکومت سے سخت نالاں ہیں اور کشمیری حریت پسندوں کو پناہ دینے اور ان کی مدد کرنے میں پیش پیش ہیں۔۔۔ یہ صورت حال پاکستان کے لئے حد درجہ قابلِ اطمینان ہے۔میرے خیال میں نیپال کی طرف سے یہ خوشگوار ہوائیں ایک نیک شگون ہے ۔ جس کا کھلے دل سے سواگت کرنا چاہیے۔