بارود کے ڈھیر پر چنگاریوں سے کھیل
جب بھی بھارتی انتخابات قریب آتے ہیں تو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعوے دار یہ ریاست انتہائی غیر جمہوری رویہ اپنا لیتی ہے۔ انسانی حقوق پامال اور معاشرتی قدریں بے حال دکھائی دیتی ہیں۔یہ بڑی عجیب بات ہے کہ سوا ارب آبادی کے اس ملک میں کئی دہائیوں سے الیکشن مہم چلتی ہی پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہے، حالانکہ کہ انتخابات کا ایندھن بنانے کے لیے اور بھی بہت سے مسالے ہمہ وقت دستیاب ملتے ہیں۔ چناؤ کے قریب آتے ہی گویا کانگریس اور بی جے پی میں پاکستان پر الزامات کا ایسا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے، جس میں جیتنے والے کے پلڑے میں انتہا پسندوں کے ووٹ کا سارا بوجھ آن پڑتا ہے،جو اکثر فیصلہ کن بھی ثابت ہوتا ہے۔ہر بارانتخابات کے قریب آتے ہی جان بوجھ کر ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے، جس میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
عجب معاملہ ہے کہ اس فضا میں، جہاں ایک برادری عدم تحفظ محسوس کرتی ہے، وہیں دوسری برادری کی سیاسی مضبوطی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
اب ایک بار پھر بھارت میں چناؤ کی فضا میں بدبو دار الزامات اچھالنے کا سلسلہ جاری ہے، ایک جانب پاکستان پر حملے کی بات ہورہی ہے تو دوسری طرف بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کا جینامزید دوبھر کیا جارہا ہے۔ان حالات میں بھارت میں بسنے والوں کے شام و سحر میں خوف کا ایسا زہر گھل گیا ہے، جس میں وہ روز مر مر کے جیتے ہیں۔دنیا میں مذہبی بنیادوں پر تفریق کی یہ سب سے بڑی مثال ہے،جہاں اب تک ہزاروں مسلمان اس انتہا پسندانہ رویے کے ہاتھوں اپنی جان ہار چکے۔
بھارت میں بسنے والا شاید ہی کوئی ایسا مسلمان ہو جسے انتہا پسندانہ سوچ سے جنم لیتے ایسے تلخ تجربات سے نہ گزرنا پڑا ہو۔یہی نہیں، بلکہ ایسے سیکولربھارتی،جن کے نام مسلمانوں جیسے تو ہیں،لیکن نظریاتی یا عملی طور پر ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہ بھی اس ہندو انتہا پسندی کی زد میں ہیں۔ان کے پُتلے بھی جلائے گئے ہیں اور انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔یہی گھٹن تھی،جس سے اکتائے ہوئے نصیرالدین شاہ بول پڑے تھے کہ اگرچہ ہمارے بچوں کا کوئی مذہب نہیں، لیکن کل کو مذہبی خانوں میں بٹے معاشرے میں کسی نے پوچھ لیا کہ آپ کا مذہب کیا ہے تو وہ کیا جواب دیں گے؟عامر خان نے بھی ایسی ہی بات کہی تھی،جوجرم ٹھہری اور ان کے خلاف نہایت منظم طریقے سے کردار کشی کی مہم شروع کردی گئی۔کچھ ایسا ہی ان بھارتی ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ بھی ہوا،جنہیں محض اس لئے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اس انتہا پسندانہ سوچ کو رد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی جرأت کر بیٹھے۔
بھارت میں جن حالات سے مسلمان گزر رہے ہیں، اس کا اندازہ سرحد کے اِس پار کرنا ممکن ہی نہیں۔اس سے بڑھ کر ستم وہ جھیل رہے ہیں، جن کا تعلق کشمیر سے ہے ۔یہ کشمیر میں ہوں تو قابض بھارتی فوج کے لئے تختہ مشق ہوتے ہیں، بھارت کے کسی دوسرے شہر میں جائیں تو انتہا پسندی کی سولی پر چڑھا دیئے جاتے ہیں۔
گزشتہ دو ہفتے کے دوران موصول ہونے والے اعدادو شمار کے مطابق ایسے کشمیریوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جنہیں بھارتی انتہا پسند ہندوؤں نے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ستم اُٹھانے والوں کا المیہ اس سے الگ ہے۔ان حالات میں کہ جب بات دلیل کے بجائے گولی اور لاٹھی کے ذریعے منوائی جائے تو پھر مظلوم طبقے میں ردعمل کے جذبات بھی اُبھریں گے اور کہیں کہیں اس کا عملی مظاہرہ بھی سامنے آئے گا۔
اب اس تناظر میں اگر پلوامہ حملے کو دیکھا جائے تو یہ بھی ایسے ہی رویے کا ردعمل نظر آتا ہے، جس نے ہندوؤں کے انتہا پسندانہ رویے کے بدترین تشدد کے ماحول میں جنم لیا،لیکن بھارت کی جانب سے جس غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ دیکھا گیا، اس سے کم از کم یہ تو طے ہے کہ وہ نہ تو مسلمان،بالخصوص کشمیریوں کے ساتھ غیر انسانی رویے پر نادم ہے اور نہ ہی یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھے جائیں۔
کیا ظلم ہے کہ راج نیتی کے اس موڑ پر محض حصول اقتدار کے لئے ایسا کھیل رچایا جا رہا ہے، جس میں خطے کا امن تو خطرے میں ہے ہی، ساتھ بھارت خود بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر چنگاریاں سلگانے کے کھیل میں مصروف ہے۔اب ان دانشوروں کو کیا کہیے،جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اب بھی بھارت سے سنجیدہ نوعیت کے مذاکرات ممکن ہیں۔
ہمیں اب جان لینا چاہئے کہ جس ریاست میں تمام تر سیاست کا انحصار پُر تشدد مذہبی سوچ پر ہو وہ کیا مکالمہ کرے گی اور کس امن کا دیپ جلائے گی؟بس دیکھتے جائیے کہ آنے والے دنوں میں حالات کس موڑ کی جانب جاتے ہیں،لیکن اتنا ضرور یاد رکھیے کہ بھارت کی یہ انتہا پسندی ابھی مزید بڑھے گی۔
ابھی مظلوموں کا لہو بھی ارزاں ہو گا اور دھمکیوں کا ڈھول بھی پورے زور سے پیٹا جائے گا،کیونکہ ابھی چناؤ میں دیر ہے، چناؤ تک ابھی بہت سے گھاؤ دکھائی دیں گے۔بس دیکھتے جائیے۔