پاک بھارت ”براہِ راست“ مذاکرات کی تجویز
امریکہ نے پاکستان اور بھارت کی طرف سے کشمیر کی لائن آف کنٹرول(ایل او سی) پر 2003ء کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرنے پر از سرِ نو اتفاق کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لئے ایک مثبت قدم قرار دیا ہے،امریکہ نے کشمیر اور دوسرے معاملات پر بھارت اور پاکستان کے درمیان براہِ راست بات چیت کی حمایت بھی کی ہے۔امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ جوبائیڈن انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ دونوں ملک کشمیر کے معاملے پر براہِ راست مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں،امریکہ فریقین کے درمیان بہتر روابط کی جاری کوششوں،ایل او سی پر کشیدگی اور پُرتشدد واقعات کم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنہیں امید ہے کہ دونوں ممالک میں مزید بات چیت کی راہ ہموار ہو گی،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے بھی کہا ہے کہ جنگ بندی، جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی جانب مثبت پیش رفت ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہدہ دراصل 2003ء میں طے پایا تھا اور یہ آج تک نافذ العمل ہے البتہ اس کے باوجود ایل او سی پر بھارت فائرنگ اور گولہ باری کرتا رہتا ہے،جس کا پاکستان کو بھی جواب دینا پڑتا ہے،کنٹرول لائن کے قریبی دیہات میں رہائش پذیر لوگ اس گولہ باری سے متاثر ہوتے ہیں،کھیتوں میں کام کرنے والے کسان بھی نشانہ بن جاتے ہیں،سکول جانے والے طلبا و طالبات کو لے جانے والی گاڑیاں بھی گولہ باری کی زد میں آتی رہتی ہیں۔پاکستان جنگ بندی معاہدے کی ان خلاف ورزیوں پر بھارتی ہائی کمیشن کے ساتھ مسلسل احتجاج کرتا رہا ہے،دو ہزار سے زائد مرتبہ خلاف ورزیاں کی گئیں، جن میں معصوم جانیں نشانہ بنیں،اب دونوں ممالک نے اگر اس پرانے معاہدے کی ”تجدید نو“ کی ہے اور یہ طے کیا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کا احترام کیا جائے گا تو یہ لائق ِ تحسین ہے تاہم اہم سوال یہ ہے کہ سترہ برسوں کے دوران اگر بھارت نے خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تو اِس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اب خلاف ورزیوں کا پرانا وطیرہ نہیں دہرایا جائے گا، دونوں ممالک کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرلوں کے درمیان رابطے کے نتیجے میں معاہدے کی پابندی کرنے کا جو عزم دہرایا گیا ہے اس میں کار فرما جذبے کو تو سراہا جانا چاہئے اور یہ امید بھی رکھنی چاہئے کہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں اب نہیں ہوں گی،لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا اُن امور کا جائزہ لیا گیا،جن کی وجہ سے2003ء کا معاہدہ طے پانے کے بعد ہی بھارت کی جانب سے خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جو اب تک جاری تھا اب اگر پرانے عزم کو دوبارہ دہرانا پڑا ہے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قیام امن کی ضرورت کا احساس کیا گیا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا تو اُس وقت بھی اسے بڑی کامیابی تصور کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں امن کی ”جاری کوششوں“ کو تقویت ملے گی، لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ معاہدے کے باوجود حقیقی جنگ بندی نہ ہو سکی اور وقفے وقفے سے بھارت نے اس کی خلاف ورزیاں جاری رکھیں،بعض اوقات تو فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ زیادہ شدید بھی ہو جاتا رہا، ایک بار بھارت نے یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ اُس نے کنٹرول لائن کے علاقے سے پاکستان کے خلاف ”سرجیکل سٹرائیک“ کی ہے،لیکن آج تک اُس مقام کی نشاندہی نہیں کی گئی جہاں سرجیکل سٹرائیک ہوئی تھی۔ دو برس قبل پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ پر حملہ کر کے ”دہشت گردوں کے کیمپ“ تباہ کرنے کا تصوراتی دعویٰ بھی کر دیا تھا،لیکن زمین پر اس کا کوئی ثبوت نہ ملا تو بالآخر بھارت کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ یہ دعویٰ بالکل غلط تھا،جو بات درست تھی وہ یہ تھی کہ بھارت کو اس حملے کی پاداش میں اپنے دو جنگی طیاروں سے ہاتھ دھونا پڑے اور ایک پائلٹ بھی گرفتار ہو گیا جسے پاکستان نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلد ہی رہا کر دیا۔
اس پس منظر میں جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے کا عزم تو مبارک ہے، بشرطیکہ پہلے کی طرح خلاف ورزیاں شروع نہ ہو جائیں،امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا اور دونوں ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے براہِ راست مذاکرات کریں،لیکن اِس وقت دونوں ممالک میں کشیدگی جس سطح پر موجود ہے اور بھارت کشمیر کو ضم کرنے کا غیر قانونی اقدام بھی کر چکا ہے ایسے میں مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات کا آغاز بظاہر تو بہت ہی مشکل ہے اِلاّ یہ کہ اقوام متحدہ یا امریکہ مذاکرات کے آغاز کے لئے کوئی ایسا غیر معمولی کردار ادا کریں، جس کی وجہ سے یہ عمل آگے بڑھ سکے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ثالثی کی پیش کش کرتے رہتے ہیں،جو بھارت نے کبھی قبول نہیں کی۔اقوام متحدہ کی اصل ذمے داری تو یہ ہے کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل کرائے اور مسئلہ کشمیر حل کرائے،لیکن اس جانب تو کوئی پیش رفت نہیں، محض مذاکرات کے ”خیر مقدم“ سے بات آگے کیسے بڑھے گی؟ امریکہ کا تو پرانا موقف ہے کہ دونوں ممالک خود مذاکرات کریں،امریکہ صرف ”حوصلہ افزائی“ کر سکتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ ”حوصلہ افزائی“ مذاکرات کے عملاً انعقاد کی کوئی صورت بھی پیدا کرتی ہے یا نہیں؟