”اشرافیہ“ عوام کے خلاف سب اکٹھے!
بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمشن کا ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن کا فیصلہ خوشدلی سے قبول کر لیا جاتا اور یوٹرن لے کر عدالتی کارروائی سے گریز کیا جاتا،کیونکہ خود چیئرمین، کپتان عمران خان چار حلقے کھولنے اور این اے 75 کے 20 مشکوک حلقوں میں دوبارہ الیکشن کی تو خود حمایت کر چکے تھے اور ان کا موقف ہے کہ اگر ان کے مطالبے پر ماضی میں چار حلقے کھول دیئے جاتے تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے، لیکن اب انہوں نے الیکشن کمشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی اجازت دی ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز بھی ریکارڈ پر ہیں جنہوں نے کہا کہ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں ان کی یہ بات حقیقت ہوتی جب الیکشن کمشن کا فیصلہ خوش دلی سے قبول کیا جاتا جو باقاعدہ تحقیقات کے بعد کیا گیا اور دھاندلی کی ذمہ داری متعین کر کے ان افسروں کے خلاف تادیبی کارروائی کے احکام بھی جاری کئے، یہ درست اور تسلیم کہ قانونی چارہ جوئی کی گنجائش ہو تو اسے حق کے طور پر مانا جاتا ہے۔ لیکن پنجاب میں سینٹ انتخابات کے حوالے سے ہونے والی مفاہمت یہ ترغیب دیتی ہے کہ ماحول کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کی کوشش کی جائے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا حتیٰ کہ محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اس میں سے بھی نقطہ اختلاف پیدا کر کے اپنے عہدے کا فرض نبھا دیا انہوں نے اس مفاہمت کو بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا مک مکا قرار دے ڈالا حالانکہ خود عمران خان کہہ رہے تھے کہ ان کی جماعت کے اراکین کو خریدا جا رہا ہے جہاں تک پنجاب میں ہونے والی مفاہمت کا تعلق ہے تو یہ خود تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے راہنما سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ گو اس میں ان کی جماعت کا اپنا فائدہ بھی ہوا کہ کامل علی آغا بھی سینٹر بن گئے۔ ہم ذاتی تعلق کے حوالے سے مانتے ہیں کہ کامل آغا کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے۔ وہ خود کفیل ضرور ہیں، لیکن کروڑ پتی نہیں۔ان کی طرف سے تو کوشش چودھری برادران ہی نے کرنا تھی۔ لیکن اب وہ باعزت طور پر منتخب ہو گئے ہیں اور پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ نہیں ہو سکی۔ ڈاکٹر صاحبہ غور فرما لیں کہ اگر الیکشن ہی ہوتا تو پھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی مل کر کوشش کرتیں اور نتیجہ یہ ہوتا کہ آج جو ایک زیادہ نشست تحریک انصاف کے اتحاد کو ملی ہے وہ شاید مخالف اتحادیوں کے کسی متفقہ امیدوار کو مل جاتی، اس مفاہمت کے نتیجے میں تو حکومتی اتحاد ہی کو فائدہ ہوا ہے اور سینٹ میں پنجاب سے بھی اس کو ایک نشست زیادہ مل گئی ہے، اس سے مجموعی نمبر گیم پر اثر پڑے گا۔ اس لئے بات کرنے سے پہلے اس کے سارے پہلوؤں پر غور کر لینا چاہئے اس نتیجے میں مفاہمت کے دروازے کھل سکتے تھے۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا ڈاکٹر صاحبہ کی بات درست ہے کہ اب میدان اسلام آباد میں لگ گیا ہے۔وہ اس نشست کے لئے اپنے اراکین کو سنبھالنے کے فرائض میں ہاتھ بٹائیں اور قومی اسمبلی میں ”مشکوک“ اراکین تلاش کریں کہ اب خطرہ وہاں ہے لیکن ہمارا پختہ یقین ہے کہ وہ اس پر ڈسکہ والی نشست کے حوالے سے بیان بازی کو ترجیح دیں گی۔
جہاں تک محترم فرزند فراز، کا تعلق ے تو ان کو بھی احتیاط کرنا چاہئے۔ صحافی بھڑوں کا چھتہ ہیں ان کے حوالے سے بات معقول ہو تو بہتر ہوتا ہے۔ یہ درست نہیں کہ وہ وزیر اطلاعات ہیں تو یہ عنایت بھی فرمائیں کہ کس کو صحافت کرنا اور کس کو نہیں کرنا چاہئے۔ یہ گزارش ہم نے اس لئے کی کہ جو افراد، حضرات و خواتین ہماری اپنی نظر اور فہم کے مطابق صحافی ہیں اعتراض ان کی طرف سے ہوا، لفافہ صحافیوں نے خاموشی کو ترجیح دی ہے تھوڑے کہے ہی کو زیادہ جانیں، ہم احمد فراز کا بہت زیادہ احترام کرتے اور اس حوالے سے شبلی فراز بھی محترم ہیں۔
اب ذرا بات کر لی جائے مہنگائی کی تو وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں سنٹرل بزنس سنٹر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے پھر دہرایا کہ مہنگائی کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں ہم ان حکومتوں کے داعی یا طرف دار نہیں۔ ہماری تنقید کا ہدف ہر دو حکومتیں رہیں، لیکن خان صاحب کو اپنی ادا پر خود غور کرنا چاہئے ان کا یہ فرمان شہ سرخیوں سے چھپ گیا لیکن ساتھ ہی یہ خبر بھی نظر سے گزری کہ اوگرا نے آئندہ پندرہ روز کے لئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مجموعی طور پر 20 روپے فی لیٹر اضافے کی سفارش کی ہے گزشتہ پندھواڑے کے لئے 11 روپے کی سفارش تھی، جسے وزیر اعظم نے مسترد کر کے داد لی تھی۔ اب خوف اس سے بڑا دلایا گیا تاکہ وزیر اعظم کو اس نرخ کو کم کرنے کی سہولت رہے۔ اب دیکھتے ہیں ردعمل کیا ہوتا ہے۔ یہ آئی ایم ایف (عالمی مالیاتی ادارہ) چلا رہا ہے کہ وہیں سے بجلی، گیس اور پٹرولیم کے نرخوں میں اضافے کی ہدایت ملتی اور وزیر خزانہ عمل کرتے ہیں۔ اب اگر حکومت خود بجلی، گیس، پانی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے گی تو اس سے مہنگائی نہیں ہو گی تو کیا ”بہاریں پھول برسائیں گی“ اس لئے وزیراعظم سمیت حکومتی اراکین و ترجمانوں کو اپنا رویہ محتاط رکھنا چاہئے۔ مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے اور اس وجہ سے عوام کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہو چکا صرف چھلکنے کی دیر ہے کہ بھوک سب سے بڑا مرض ہے جو کوئی اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے سکتا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ تو ہمارے مہربان کے مطابق لاہور کی ایک ضرب المثل ہے۔ ”چَھٹے یار کس دے کھان پین نوں وکھو وکھ، تے لڑن بھڑن نوں اکٹھے“ (چَھٹے سے مراد ”اشرافیہ“ ہے) یہ کھانے پینے ”لوٹ مار“ کے لئے تو الگ الگ ہیں لیکن جب ان کے مخالف فریق ہوں ”عوام“ تو یہ ان کے ساتھ لڑنے کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا اب عوام منتظر ہیں کہ ان کے حقیقی مسائل کی بات سچے دل اور دیانت سے کون کرتا ہے۔