چودھری مونس الٰہی کا حکومت کو نہ گھبرانے کا مشورہ !
پاکستان مسلم لیگ(ق) کے رہنما اور وفاقی وزیر چودھری مونس الٰہی نے وزیراعظم عمران خان کو ”نہ گھبرانے“ کا مشورہ دے کر سیاست کے میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب ملکی سیاست میں طوفان برپا ہو، اپوزیشن نے حکومت کو گھر بھیجنے کی مکمل تیاری کی ہوئی ہو، اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف نے پاکستان مسلم لیگ(ق) کے قائدین چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی سے ایک وفد کے ہمراہ ”ظہور پیلس“ میں ملاقات بھی کر لی، سیاسی حلقوں میں اس ملاقات کو اس لئے اہمیت دی گئی کہ یہ ملاقات 14 سال کے طویل عرصے بعد ہوئی۔ دوسرے مسلم لیگ(ق) تحریک انصاف کی ایک اہم اتحادی ہے، اسی لئے چودھری مونس الٰہی جو ایک منجھے ہوئے سیاستدان اور سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک اور اخلاقی اقدار کے امین ہیں،ایک اجلاس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کو جب یہ کہا کہ آپ ”گھبرائیں نہیں“، اس کا سادہ سا مطلب تو یہ تھا کہ حکومت کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملاقاتیں سیاست کا حسن ہوتی ہیں اور گھر آنے والے کو ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن سیاسی حلقوں میں،چودھری مونس الٰہی کی طرف سے حکومت کو ”نہ گھبرانے“ کے مشورے کو ذومعنی انداز میں لیا گیا اور ہر کوئی اس پر اپنے انداز میں تبصرہ کرتا دکھائی دیا
سیاست کے دو بڑے خاندانوں کی،ملک میں سیاسی بے یقینی کی صورت حال میں ملاقات یقینا بڑی اہمیت کی حامل ہے،
بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو ہٹانے کے لئے تحریک عدم اعتماد کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس کے لئے راہ بھی ہموار کی جا رہی ہے۔دوسرے یہ ملاقات اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین کل تک ایک ہی تھے،ان خاندانوں کے درمیان دو دہائی قبل جو اختلافات ہوئے،اس کے باوجود ان دونوں خاندانوں نے اخلاقیات کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اور ہر مشکل وقت میں بالخصوص چودھری برادران نے شریف خاندان کا ہر ممکن ساتھ دیا، ان دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین کے درمیان اصل اختلاف یہ تھا کہ ایک جماعت ریاست کی مکمل وفادار اور دوسری کو قدرے تحفظات رہے، جس کا خمیازہ بھی انہوں نے بھگتا، حالیہ ملاقات میں گلے شکوے بھی ہوئے اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ بھی زیر بحث آیا، لیکن چودھری برادران نے اپنا یہ دو ٹوک موقف اپنایا کہ ریاست اور ملک و قوم مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا نیز یہ کہ شریف خاندان کو بھی چاہئے کہ ریاست کے حوالے سے اپنے موقف کو تبدیل کرے، مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے ریاست کے حوالے سے اپنے موقف کو تبدیل نہ کیا تو اسے بجائے فائدے کے نقصان ہو گا۔
پاکستان مسلم لیگ(ق) کی قیادت نے 2018ء میں ملک و قوم اور ریاست کے بہترین مفاد میں تحریک انصاف کا ساتھ دیا تھا اور اب مسلم لیگ (ق) کی قیادت انہی چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو بہترین فیصلہ ہو گا، وہی کرے گی۔ دونوں خاندانوں کی اس ملاقات کے حوالے سے ملک کے طول و عرض میں تبصرے ہو رہے ہیں، ہر شخص اپنا نقطہ نظر پیش کرتا دکھائی دے رہا ہے، یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ملک میں مہنگائی، لاقانونیت، غنڈہ گردی اور بے راہ روی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس نے ہر شخص کو بری طرح متاثر کیا ہے، متوسط اور سفید پوش افراد پر تو اس کے بہت زیادہ خوفناک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں کرپشن اور سٹریٹ کرائمز بھی بڑھتے جا رہے ہیں، اس سے بھی زیادہ خطرناک صورت حال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ ایسے میں لوگ ایک دوسرے سے صرف یہی سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ملکی حالات تبدیل ہوں گے بھی کہ نہیں؟
تحریک انصاف کی حکومت سے لوگوں کو بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ ہر شخص کے ذہن میں تھا کہ شائد ملکی حالات تبدیل ہو ہی جائیں، ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بیشک نہ بہیں،لیکن خوشحالی کی سمت کا تعین تو ممکن ہونا چاہئے تھا خود وزیراعظم عمران خان نے بھی بڑے بلند آہنگ دعوے کئے تھے، لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی حقیقت کا روپ اختیار نہ کر سکا، ملک میں معمولی بہتری کے اثرات دکھائی نہیں دیئے،بلکہ آنے والا ہر لمحہ بد سے بدتر کی طرف ہی جا رہا ہے، اب تو تحریک انصاف کے اپنے کارکن بھی بددلی کا شکار ہو چکے ہیں،بلکہ ان کے لئے عوام کی باتوں کا جواب دینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت 2018ء میں اقتدار میں آئی تو پہلے 100 دنوں میں تبدیلی کے دعوے کئے گئے، پھر چھ ماہ کا کہا گیا، اس کے بعد سال کا وعدہ کیا گیا اور پھر بس وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوا ہو کے مصداق عوام کو ایک ایسے سراب کے پیچھے لگا دیا گیا کہ الامان و الحفیظ…… تحریک انصاف نے اپنے پہلے بجٹ کے موقع پر سرکاری ملازمین سے وعدہ کیا تھا کہ مشکل حالات ہیں خاطر خواہ تنخواہوں میں اضافہ ممکن نہیں آپ صرف دو سال صبر کر لیں ملک اتنا خوشحال ہو جائے گا کہ آپ کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کر دیا جائے گا، آج صورت حال یہ ہے کہ 2018ء کی نسبت اشیاء صرف سمیت ہر قسم کی چیزوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یوٹیلیٹی بل 2018ء میں اگر 2000 تھے تو وہی آج بارہ، پندرہ ہزار ہو چکے ہیں، دالیں، سبزیاں اور گوشت کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے،ایک عام آدمی کے کم از کم ماہانہ اخراجات 50ہزار سے ہر صورت تجاوز کر چکے ہیں، متوسط طبقے کے اخراجات کسی بھی صورت 70، 80 ہزار سے کم نہیں ہیں اور لوگوں کی آمدنیاں وہی لگی بندھی ہیں۔
حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس عائد کیا ہوا ہے، عام آدمی جس کی آمدنی کسی بھی صورت میں ٹیکس دینے کے زمرے میں نہیں آتی، وہ بھی معقول ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ اس کے باوجود بھی قوم ٹیکس چور ہی ہے، مزے کی بات یہ کہ سرمایہ دار اور کاروباری طبقہ اپنا اضافی دیا ہوا ٹیکس حکومت سے ٹیکس ریٹرن کی صورت میں وصول کر لیتا ہے لیکن عام آدمی تو معمولی سے معمولی چیز کی خریداری پر بھی حکومت کو ٹیکس صرف ادا کرتا ہے، وصول تو وہ کسی صورت کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے باوجود بقول حکمرانوں کے یہاں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ تحریک انصاف نے اگر اپنے اتحادیوں بالخصوص مسلم لیگ(ق) کے قائدین کے مشوروں پر عمل کیا ہوتا تو ملکی حالات آج بہت بہتر ہوتے۔ مسلم لیگ ق کے قائدین نے حکومت کے ساتھ اختلافات کے باوجود ہمیشہ مشکل وقت میں تحریک انصاف کا ساتھ دیا ہے، ایسے میں چودھری مونس الٰہی نے وزیراعظم کو ”نہ گھبرانے“ کا مشورہ دیا ہے تو وہ ملک و قوم اور ریاست کے بہترین مفاد میں ہی دیا ہو گا۔