اردو۔۔۔ ہم شرمند ہ ہیں
پاکستان کو معرض وجود میں آئے سات دہائیوں سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔ ان سات دہائیوں میں پاکستان نے کئی دور دیکھے ۔ کچھ دور پاکستان کے لیے ترقی کا زینہ ثابت ہوئے تو کچھ ادوار سے پاکستان کی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ کئی ایسے ممالک بھی دنیا میں موجود ہیں جو پاکستان کے بعد دنیا کے نقشہ پر نمودار ہونے کے باوجود ترقی کی دوڑ میں پاکستان سے کہیں آگے ہیں۔ ان کے عوام خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ سب سے بڑی اور زندہ مثال ہمارا ہمسایہ ملک چین ہے۔
ویسے تو ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی ہے لیکن اتنی گہری دوستی اور اُنس کا رشتہ ہونے کے باوجود افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہم اپنے دوست ملک سے کچھ نہ سیکھ سکے۔ چین نے دیکھتے ہی دیکھتے اتنی ترقی کی کہ دنیا رشک کی نظروں سے دیکھنے لگی۔ یہاں تک کہ مغرب اور امریکا چین کے درپے ہوگئے۔ ہر طرف سے چین کو لگام ڈالنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں لیکن چین اپنی مستقل مزاجی سے ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔
آج جو بات کرنا مقصود ہے وہ قومی زبان کی اہمیت ہے۔ دنیا میں چین سمیت جتنے بھی ممالک دیکھ لیں ان ممالک کی ترقی کی بڑی وجہ ان کا اپنے ہاں قومی زبان کو فروغ ہے۔ آپ چین دیکھ لیں، جاپان کی مثال لے لیں یا امارات کو دیکھ لیں۔ ان سبھی ممالک میں اپنی قومی زبان کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم 1973 کے آئین پر اپنا نظام مملکت چلا رہے ہیں۔ اس آئین کی رُو سے اردو ہماری قومی زبان ہے۔ لیکن سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم عملی طور پر اپنے ملک میں اپنی قومی زبان کو مکمل طور پر رائج نہیں کر سکے۔
متعد د بار قومی زبان کو ہر سطح پر رائج کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ لیکن یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔ اس کے علاوہ قومی زبان کے فروغ کے لیے بار ہا آوازیں گونجتی رہتی ہیں لیکن یہ آوازیں نقار خانے میں توطی کی آواز سے زیادہ اثر نہیں دکھا سکیں۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی قومی زبان کے فروغ کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کے احکامات کو اردو میں جاری کرنے کی تلقین کی لیکن اس تلقین پر عملدر آمد خال خال ہی نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ بھی قومی زبان کے فروغ کے لیے احکامات جاری کرچکی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان احکامات کو بھی ہوا میں ہی اڑا دیا گیا اور قومی زبان کے فروغ کا خواب سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ نہ تو تعلیمی اداروں میں قومی زبان میں تعلیم کا نظام رائج کیا جا سکا نہ ہی دفاتر اور (معذرت کیساتھ) عدلیہ میں قومی زبان کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا۔
شعبہ تعلیم کی بات کی جائے تو یہاں ہمارے ہاں تین قسم کے نظام کام کررہے ہیں۔ ایک نظام وہ جو سرکاری سکولوں میں اس میں اردو اور انگلش میڈیم میں تعلیم دی جاتی ہے اب موجودہ حکومت نے یکساں نصاب تعلیم کے لیے کام کا آغاز تو کیا لیکن مکمل طور پر یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے میں حکومت ناکام رہی ہے ۔ دوسرا وہ نظام جو مدارس کی شکل میں رائج ہے اور تیسرا وہ جو ایلیٹ سکولز میں رائج ہے جہاں صرف بیوروکریٹس اور اعلیٰ شخصیات کے بچے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی قومی زبان کے فروغ کی تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں شعبہ تعلیم میں اردو کو صرف ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔
انگریزی زبان میں نصاب جب بچوں کو پڑھایا جاتا ہے تو بعض طلبا و طالبات سبق کا مکمل مفہوم سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جب مکمل سبق سمجھ ہی نہیں آئے گا تو بچے کس طور آگے بڑھ سکیں گے۔ جب بات مکمل سمجھ نہیں آتی تو پھر رٹا سسٹم کام آتا ہے۔ بیشتر بچے رٹا لگا کر اچھے نمبر تو لے لیتے ہیں لیکن عملی زندگی میں پھر انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دفاتر میں بھی کام صرف اور صرف انگریزی زبان میں کیا جارہا ہے۔ کوئی احکامات ہوں یا کوئی فیصلہ اس کی اطلاع صرف انگریزی میں جاری کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد عدالتی نظام پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی صورتحال مختلف نظر نہیں آتی۔ کہنے کو ہر کوئی خواہش کرتا ہے کہ قومی زبان کو فروغ ملے لیکن عمل کرنے سے ہر کوئی کتراتا ہے۔ عدالتی نظام میں درخواست دائر کرنے سے لیکر فیصلے تک سب معاملات کا انحصار انگریزی پر کیا جاتا ہے۔ فیصلہ انگریزی زبان میں لکھا ہونے کے باعث بعض اوقات تو سائل بھی فیصلہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ فیصلے میں کیا لکھا گیا ہے۔ سائلین بعض اوقات تو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ فیصلہ ان کے حق میں آیا ہے یا خلاف، اس کے لیے انہیں وکلا پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو بھاری بھرکم فیسیں کھری کر کے سائل کو فیصلے سے آگاہ کرتے ہیں۔
اب اگر ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں اپنی قومی زبان کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ تعلیم سے لیکر دفاتر تک ہر معاملے میں قومی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ قومی زبان کو فروغ دے کر ہی ممالک نے ترقی کی ہے۔ چین، جاپان اور کئی دیگر ممالک اس کی واضح مثال ہیں۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ ستر سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم انگریزی سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ ہم نے عملی طور پر تو ایک الگ ریاست بنا لی، انگریز سے آزادی حاصل کر لی لیکن ہم ذہنی طور پر اب بھی مغرب کی غلامی کررہے ہیں۔ ہماری بیوروکریسی اب بھی مغرب کی دلدادہ ہے۔ انگریز طرز کے شاہی رویے ہماری بیوروکریسی میں اب بھی رائج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج ترقی کی منزل کی جانب کچھوے کی چال سے رینگ رہے ہیں لیکن ترقی کے راستےپر احسن انداز میں گامزن نہیں ہو سکے۔ یہی ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔
جب ہم قومی زبان کو فروغ دیں گے، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں قومی زبان کو اہمیت دی جائے گی تو طلبہ بھی بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے اور سائلین کی مشکلات میں بھی کمی آئےگی۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے اے قومی زبان۔۔۔ اے اردو۔۔۔ ہم شرمندہ ہیں۔۔۔۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.