الیکشن کمیشن کے لئے چند تجاویز
داستان گو کہا کرتے تھے کہ جو پیچھے مڑ کر دیکھے گا وہ پتھر کا ہو جائے گا۔اس بات کے مجازی معنی اب سمجھ میں آئے ہیں کہ گزرے ہوئے وقت پر ناز کرنے والے دراصل موت کے سکوت اور جمود سے ہم کنار ہو جایا کرتے ہیں۔گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈالنا فقط اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں، لغزشوں اور کوتاہیوں کو جان سکیں۔ الیکشن 2024ءکا طوفان بلاخیز اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ گزر چکا۔کچھ لوگ جیت گئے، بہت سے ہار گئے۔اس لیے کچھ لوگ صبر شکر کر کے مطمئن بیٹھے ہوئے ہیں اور بہت سے لوگ شکوہ کناں ہیں۔ہارنے والوں کی تعداد چونکہ ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔ووٹ کی پرچی پر چھپے ہوئے بہت سے ناموں اور نشانوں میں سے ہمیشہ کسی ایک ہی کو جیتنا ہوتا ہے اس لیے شکوے شکایت کی صدا زیادہ گھمبیر لگنے لگتی ہے۔ہارنے والے ایک ساتھ بولتے ہیں تو شور فغاں ساری دنیا سنتی ہے۔گویا ایک ایک آنکھ سے آنسو بہتا ہے تو سیلاب بن جاتا ہے۔ایک الیکشن کمیشن بے چارہ کس کس کو جتائے؟ اردو کی کہاوت کے مطابق انار ایک ہوتا ہے اور بیمار سو۔ظاہر ہے کہ انار کسی ایک ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے۔الیکشن کا تو معاملہ ہی الگ ہے۔یہاں انار پلیٹ میں رکھ کر کوئی ایک آدمی کسی کو پیش نہیں کرتا بلکہ بہت سے بیمار ، متفقہ رائے کے بعد کسی نہایت تن درست اور توانا آدمی کو انار کھانے کی پیش کش کرتے ہیں۔انار کسی غلط آدمی کو ملا یا درست آدمی کو اس کی ساری ذمہ داری رائے دہندگان پر عائد ہوتی ہے لیکن الزام کی چکی میں بے چارہ الیکشن کمیشن پس جاتا ہے۔نیکی برباد گناہ لازم۔الیکشن کمیشن پورے پانچ سال اس ایک دن کے لیے کام کرتا ہے جس کے لیے اہل سیاست دن گنتے رہتے ہیں۔الیکشن کمیشن پر اس بار بھی وہ الزام لگا جو ہمیشہ سے اس کا نصیب رہا ہے۔ہارنے والے بیش تر امیدوار اس کی دیانت داری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
اس دفعہ الیکشن کمیشن نے ایک نیا تجربہ کیا۔ ریٹرننگ آفیسر بیورو کریسی سے لیے گئے۔ماضی میں ریٹرننگ آفیسر عدلیہ سے لیے جاتے تھے لیکن بد دیانتی اور دھاندلی کے الزامات تب بھی اسی شد و مد کے ساتھ لگائے جاتے تھے جس طرح آج لگائے جا رہے ہیں۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر الیکشن کمیشن آج تک اپنے ماضی کی غلطیوں، لغزشوں اور کوتاہیوں سے کوئی ایسا سبق کیوں نہیں سیکھ سکا کہ ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگانا چھوڑ دیں۔مجھے تو لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن ملامتی صوفی اور دیوانے عاشق کی طرح جان بوجھ کر ایسے حالات خود پیدا کرتا ہے کہ اس کی طرف پتھر اچھالے جائیں۔لیکن صاحبو! الیکشن کمیشن تو عاقلوں اور کاملوں کے اکٹھ کا نام ہے۔الیکشن کمیشن کے ممبر بھلا کیسے جنونی ہو سکتے ہیں؟یہ کیوں بلاوجہ پتھر کھائیں گے؟
جنون اہل جنوں ہی کو زیب دیتا ہے
زمانے والو! ہمیں دیکھ کر ہنسا نہ کرو
الیکشن کمیشن انگڑائی لیتا ہے تو بے چارے کالج اساتذہ کو ایک دن کی مجسٹریٹی اور اپنی دستار کی فکر پڑ جاتی ہے۔پہلے دو دن کی بے معنی تربیت، پھر قلیوں کی طرح کاندھے پر الیکشن کا سامان اٹھانا، پھر اسے دور دراز کے پولنگ سٹیشنوں تک پہنچانا، رات بھر اس کی حفاظت کرنا، صبح سویرے پولنگ کی دکان سجانا، پھر دن بھر امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں اور ووٹروں سے سرکھپائی کرنا، پھر موم بتی کی روشنی میں ووٹوں کی گنتی کرنا اور سب سے آخر میں فارم نمبر 45 اور 46 بھرنا۔یہی دو فارم ہوتے ہیں جن کے لیے کروڑوں اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔رات کے بارہ بجے تک پولنگ سٹیشنوں سے سارا ساز و سامان سمیٹنا اور ریٹرننگ آفیسر کے حوالے کرنا۔کتنی ڈراونی حقیقت ہے اس ڈراو_¿نے خواب کی۔ایک دن میں ایک مہینے کا کام لے کر پروفیسر صاحبان کی خدمت میں اتنی رقم پیش کی جاتی ہے جس سے صرف دو عدد پیزے ہی خریدے جا سکتے ہیں۔
اس بار الیکشن کمیشن نے بیورو کریسی کو ریٹرننگ آفیسر لگا کر دیکھ لیا۔نتیجہ کیا نکلا۔فارم 45 کی بنیاد پر فارم 47 بھرنے والے ریٹرننگ آفیسر بھی دھاندلی کے الزام کی زد میں آگئے۔بیوروکریسی گرمی میں ٹھنڈے اور سردی میں گرم کمروں بیٹھ کر کام کرنے کی عادی ہے۔عوامی طعن و تشنیع اور سنگ باری کو اس نے اہل سیاست کے لیے چھوڑا ہوا تھا اس بار یہ خود بھی اس کی زد میں آگئی اور ایسی آئی کہ کچھ افسر تو ابھی تک اپنے زخموں کو چاٹ رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ اگر وہ کسی کے دباو_¿ پر کوئی غلط کام کریں گے تو ادلے کا بدلہ تو ہو گا۔
اگر اس الیکشن میں کسی پر الزام نہیں لگا تو وہ پروفیسر برادری ہے جس نے پریزائیڈنگ آفیسر کی ڈیوٹی خوش اسلوبی سے ادا کی۔ فارم 45 دیانت داری سے تیار کیے۔کسی سیاسی پارٹی نے کسی پریزائیڈنگ آفیسر کی دیانت داری پر انگلی نہیں اٹھائی۔الیکشن کمیشن کو میں مشورہ دوں گا کہ اگلی بار گریڈ 19 اور 20 کے پروفیسروں کو ریٹرننگ آفیسر لگا کر دیکھے۔ریٹرننگ آفیسروں کے کالجز ہی کو آر۔او آفس قرار دے دے۔فارم 45 اور 46 میں سرخ روئی حاصل کرنے والی پروفیسر برادری فارم 47 کے پل صراط سے بھی نہایت احتیاط سے گزر جائے گی۔اس بار اگرچہ پولنگ میٹریل پہلے کی نسبت کچھ آسان انداز میں ملا اور واپس جمع ہوا لیکن ایک تجویز یہ ہے کہ اگر الیکشن کمیشن چاہے تو اگلی بار یہ سارا ساز و سامان آرمی اور پولیس کی نگرانی میں پولنگ سے ایک دن پہلے شام کے وقت گاڑیوں میں رکھ کر آرمی اور پولیس کی نگرانی میں پہنچا دے اور ہر پریزائیڈنگ آفیسر کو پابند کر دے کہ وہ شام کے وقت اپنے پولنگ سٹیشن میں تمام عملے کے ساتھ سامان وصول کرنے کے لیے موجود رہے۔اس بار آرمی اور پولیس پولنگ میٹریل کے ساتھ ساتھ پریزائیڈنگ آفیسرز کو بھی سڑکوں پر گھماتی رہی۔ان بے چاروں کو خوار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟