ارونا چل پردیش میں صدر راج، بھارتی حکومت مشکل میں پھنس گئی
تجزیہ : آفتاب احمد خان:
بھارتی ریاست اروناچل پردیش میں صدر راج نافذ کیے جانے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے، عدالت نے اس معاملے کو بہت اہمیت دی ہے اور اس کی سماعت کے لئے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں بدھ کو پہلے روز کی سماعت نے جہاں مرکزی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا، وہاں گورنر کے لئے بھی پریشانی پیدا ہوگئی ہے۔ دونوں کو جاری کیے گئے نوٹسز میں صدر راج کے نفاذ کے قانونی جواز سے متعلق موقف طلب کیا گیا ہے۔
اروناچل پردیش ایسی بھارتی ریاست ہے جس کی حدود تین ملکوں چین، بھوٹان اور میانمار سے ملتی ہیں، جبکہ یہ آزادی کی مسلح تحریکوں والی دو اہم ریاستوں آسام اور ناگالینڈ سے ملتی ہے۔ اروناچل پردیش بنیادی طور پر بھارت کی بجائے تبت کا حصہ ہے، جس پر بھارت نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ چین اس قبضے کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی متعلقہ معاہدے کو، کیونکہ تبت کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ چین ہی کا حصہ ہے۔ اروناچل پردیش کے باشندے بھی نسلی طور پر چین اور بھوٹان سے تعلق رکھتے ہیں، بھارت سے نہیں۔
اس ریاست کو چند روز سے سیاسی بحران کا سامنا ہے جس کے باعث مرکزی حکومت نے یہاں صدر راج نافذ کر دیا، مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے، اس نے اروناچل پردیش میں کام دکھا دیا جہاں کانگریس کی حکومت تھی۔ 60 رکنی ایوان میں کانگریس کو 47 نشستیں حاصل تھیں، اسے اس وقت شدید دھچکا لگا جب اس کے 21 ارکان منحرف ہوگئے اور وزیراعلیٰ بانم توکی کا اقتدار ختم کرنے کی غرض سے کانگریس کے 14 ارکان نے ان کا ساتھ دیا۔ ان تمام ارکان کی درخواست پر گورنر نے اسمبلی کا اجلاس پچھلے ماہ 16 دسمبر کو ایوان کی بجائے ایک کمیونٹی ہال میں بلوایا، جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر نے کی۔ انہوں نے کانگریس کے نااہل قرار دیے گئے 14 ارکان کو بحال کر دیا جبکہ اس اجلاس نے سپیکر بانم توکی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کے عہدے سے ہٹا دیا، اجلاس میں دو آزاد ارکان بھی شریک ہوئے۔
یہ اجلاس بلانے اور اس میں کارروائی کیے جانے کے فیصلوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس نے ان فیصلوں کے خلاف یکم فروری تک حکم امتناعی جاری کر دیا۔ اس دوران میں گورنر نے مرکزی حکومت سے ارونا چل پردیش میں صدر راج کے نفاذ کی تحریری سفارش کر دی اور مرکزی کابینہ نے گزشتہ اتوار کو اس کی توثیق کر دی۔ اس پر کانگریس کا ایک وفد صدر پرناب مکھرجی سے ملا مگر انہوں نے کابینہ کے فیصلے کو ترجیح دی۔ اس پر کانگریس کے رہنما سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی رہائش گاہ پر پہنچے تو انہوں نے اس کیس کی سماعت بدھ کے روز کیے جانے کا حکم جاری کر دیا۔
گزشتہ روز جب کیس کی سماعت پانچ رکنی بنچ کے روبرو ہوئی تو ججوں کا انداز خاصا سخت تھا۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے جمعہ تک جواب مانگا کہ اس نے اروناچل پردیش میں صدر راج نافذ کیوں کیا؟ اسی طرح گورنر جے پی راج کھووا سے بھی پوچھا گیا کہ انہوں نے صدر راج کی سفارش کیوں کی؟ انہوں نے ان دونوں کے وکلاء سے کہا کہ وہ 15 منٹ کے اندر اپنے مؤکلوں کو ای میل کے ذریعے اس نوٹس سے آگاہ کریں اور پھر عدالت کو رپورٹ کریں۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور گورنر کو جواب کے لئے جمعہ تک صرف دو دن کی مہلت دی ہے۔ پیر یکم فروری کو جب دوبارہ سماعت ہوگی تو صدر راج کے نفاذ کے آئینی جواز پر بحث ہوگی۔