پاناما کے ہنگامے
پاناما کے ہنگامے
قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس پر ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہے۔۔۔ گالی گلوچ کی مثالیں تو بہت سی موجود ہیں، مگر ہاتھا پائی اور مار دھاڑ کے مناظرشاذو نادر ہی دیکھے گئے ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جہاں جمہوریت ابھی پاؤں پاؤں چلنا سیکھ رہی ہے، ایسی روایات کے حامل ہیں، تاہم مستحکم پارلیمانی جمہوریتوں میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ کہنے کو ہماری جمہوریت بھی پاؤں پاؤں چلنا سیکھ رہی ہے، لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بالکل ہی نوزائیدہ ہے، اس نے بہت سے مدوجزر دیکھے ہیں اور بہت سے نازک مقامات سے گزری ہے، اس تناظر میں قومی اسمبلی کا یہ منظر بہت عجیب اور تکلیف دہ لگتا ہے۔ مَیں تو اسے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی مکمل ناکامی سمجھتا ہوں، جو اپنی غیر جانبداری برقرار نہیں رکھ سکے اور ان پر اپوزیشن کو اعتبار نہیں رہا، ان کی ہاؤس پر گرفت ہوتی تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا۔جب پچھلے اجلاس میں ایجنڈے کی کاپیاں ان کے سامنے آ کر پھاڑی گئی تھیں، انہیں اسی وقت اندازہ ہو جانا چاہئے تھا کہ معاملہ اب ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ انہیں اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کر کے ہاؤس کو ایسی کسی صورت حال سے بچانے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے تھا،مگر اس کی بجائے ان کی ساری توجہ اس بات پر رہی کہ اپوزیشن کو وزیر اعظم پر تنقید سے کیسے روکنا ہے یا اسمبلی کے اندر پاناما لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم کا دفاع کیسے کرنا ہے؟ ان کی رولنگ کا اختیار بے اثر ہوا ،تبھی تو یہ واقعہ پیش آیا۔ اگر ان کی بات مانی جارہی ہوتی تو شاہد خاقان عباسی کو شاہ محمود قریشی کی زبان بندی کے لئے ان کے پاس نہ آنا پڑتا، یہ سب کچھ اچانکنہیں ہوا؟۔۔۔مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!
جس ایوان میں خواتین کو ان کی جسمانی ساخت کی بنا پر مختلف خطابات دیئے جائیں، ٹریکٹر ٹرالی کے مماثل کہا جائے، کوئی شرم ہوتی ہے،کوئی حیا ہوتی ہے، جیسے غیر مہذب الفاظ استعمال ہوں، ایک دوسرے پر ذاتی اور نازبیا حملے کئے جائیں، وہاں ایسے واقعات کا سارا مواد تو پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے، صرف تیلی لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تیلی لگائی گئی تو فوراً ہی شعلہ بن گئی اور سب نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نمائندہ ایوان مچھلی منڈی کا نقشہ پیش کرنے لگا۔ یہ مقننہ کے ایوان کی سب سے بد ترین ناکامی ہوتی ہے کہ اس کے ارکان دلائل کی بجائے جسمانی طاقت سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کریں۔ یہ عقدہ تو سارے واقعہ کا جائزہ لینے کے بعد ہی حل ہو سکے گا کہ اس میں زیادتی کس کی تھی؟ مگر اس بات میں تو کوئی شک نہیں رہا کہ ہم نے دنیا کو اپنے غیر مہذب اور غیر جمہوری ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ اپوزیشن نے تحریک استحقاق پیش کی تھی کہ وزیر اعظم نے اسمبلی کے اندر اور عدالت میں دو مختلف موقف اختیار کئے،جس سے ایوان کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔سپیکر نے اسے تحریک استحقاق ماننے کی بجائے تحریک التوا قرار دیا۔ معاملہ تب بگڑا جب انہوں نے تحریک پیش کرنے والے سبھی ارکان کو اظہار خیال کا موقع دیئے بغیر حزب اقتدار کو جواب دینے کا موقع دے دیا۔ یہاں ان کی ایوان پر گرفت نہ ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تحریک استحقاق پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مل کر پیش کی تھی، اس لئے دونوں کے ارکان کو موقع دینا ضروری تھا۔ شاہ محمود قریشی کے بعد خواجہ آصف کو فلور دینے کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ وہ پاناما لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف پر ہونے والی تنقید کو حتی الا مکان دبانا چاہتے تھے، مگر انہوں نے یہ سب کچھ ہوم ورک کے بغیر کیا، جس کا نتیجہ اس واقعہ کی شکل میں برآمد ہوا۔اس وقت پورے ملک کی سیاست، صحافت اور عوامی رائے پاناما کیس کے گرد گھوم رہی ہے، روزانہ دو عدالتیں لگتی ہیں، ایک سپریم کورٹ کے اندر اور دوسری سپریم کورٹ کے باہر۔ اندر کی عدالت میں سماعت ہوتی ہے اور باہر کی عدالت میں من پسند فیصلے صادر کئے جاتے ہیں۔ ہر روز بدلتے موقف اور ہر روز ایک دوسرے پر الزامات نے ایک ایسی کشیدہ فضا کو جنم دیا ہے، جس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اصولاً تو جب کیس سپریم کورٹ میں ہے تو اس پر اسمبلی کے اندر یا باہر بات ہی نہیں ہونی چاہئے۔ ایک زمانے میں اس اصول پر بڑی سختی سے عملدرآمد کیا جاتا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ جہاں اور بہت سی روایات ختم ہوئیں، وہاں یہ بھی ختم ہو گئی۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے ایک عجیب راستہ یہ نکالا کہ پاناما کیس پر گفتگو کرنے کی بجائے وزیر اعظم نواز شریف کے قومی اسمبلی میں خطاب اور ان کے سپریم کورٹ میں وکیل کی طرف سے اختیار کئے گئے موقف کو نشانہ بنایا۔ تحریک استحقاق اس نکتے پر پیش نہیں کی گئی کہ وزیر اعظم اس بات کی وضاحت کریں کہ ان کا اسمبلی میں بیان کیا گیا موقف درست ہے یا سپریم کورٹ میں اختیار کیا گیا ان کے وکیل کا یہ موقف کہ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں جو کچھ کہا وہ ان کا سیاسی بیان تھا۔ ایک ایسے موقعہ پر جب سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت انجام کی طرف بڑھ رہی ہے، اپوزیشن کی یہ تحریک بہت اہم چال ہے۔ لگتا یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس اہم چال کی نزاکت کو سمجھ نہیں سکی، اس پر دلائل کے ساتھ بات کرنے کی بجائے متشددراستہ اختیار کرنے سے وہ اپوزیشن کے سامنے ڈھیر ہو گئی ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جس پر الزام لگتا ہے، وہ اگر جواب دینے کی بجائے ہاتھا پائی پر اتر آئے تو اسے اس کی شکست پر محمول کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن نے بڑی صفائی سے سپریم کورٹ میں سماعت والے حصے کو نہیں چھیڑا، بلکہ اسی حصے کا حساب مانگا ہے، جو اسمبلی کے اندر رونما ہوا، حکومتی ارکان کو اس پر غیظ و غضب ڈھانے کی بجائے، یہ دلیل لانی چاہئے تھی کہ اب چونکہ وزیر اعظم کی اسمبلی میں تقریر کا معاملہ بھی سپریم کورٹ کے پیش نظر ہے، اس لئے اس پر کوئی بحث سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہوگی۔سپیکر اس حوالے سے کوئی رولنگ بھی دے سکتے تھے، مگر اس کی بجائے اس تحریک کو طاقت کے بل بوتے پر بلڈوز کرنے کی حکمتِ عملی نے کام خراب کیا اور وہ بات جو پردے میں تھی، وہ دنیا بھر میں عیاں ہو گئی۔پاکستان میں آج تک کسی حزب اقتدار کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اپوزیشن ہمیشہ ٹھہرے پانی میں پتھر اس لئے پھینکتی ہے کہ اس میں ارتعاش پیدا ہو، حزبِ اقتدار کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ ارتعاش پیدا نہ ہونے دے۔ یہاں تو ہم دیکھتے ہیں معاملہ ہی الٹ ہے۔ پاناما کیس کے حوالے سے حکومت کے وزراء، مشیراور ترجمان دن میں چھ چھ مرتبہ پریس ٹاک کرتے ہیں۔ وہ ایشو جسے دبانا چاہئے، اسے بڑھا چڑھا کر سامنے لاتے ہیں۔
آپ ذرا سوچیں کہ اگر سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے بعد صرف پی ٹی آئی کے لوگ باہر آکر پریس کانفرنس کررہے ہوتے تو وہ کتنا عرصہ چلتیں، عوام کی طرف سے چند دنوں میں ہی تنقید شروع ہو جاتی کہ جب معاملہ عدالت میں ہے تو اس پر باہر آ کر تبصرے کیوں کئے جاتے ہیں؟ لیکن یہاں تو حکومتی وزراء، خود اسی ایشو کو ہوا دے رہے ہیں، جسے دبانا چاہئے۔ پھر جواب الجواب پریس کانفرنسوں کے ذریعے ہر شام عدالتیں لگائی جاتی ہیں اور ماحول کو خوامخوا، گرما دیا جاتا ہے، ژاں پال سارتر نے اپنے ایک مضمون’’کیوں لکھا جائے؟‘‘ میں کہا ہے کہ جب کسی لکھنے والے کے پاس لکھنے کا کوئی معقول جواز نہ ہوتو اسے لکھنے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئے۔ یہ اس لکھنے سے بہتر ہے، جس پر بعد میں اس کا تمسخر اڑایا جائے۔ یہ بات حکومتی وزراء اور ترجمانوں کی ٹیم کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ جب اس کے پاس کہنے کو کچھ ہے ہی نہیں تو پھر ہر شام ماحول کو گرمانے کا فائدہ؟ جہاں دو لوگ تحریک التوا پر بولنے تھے، وہاں اگر چار بول لیتے تو کیا فرق پڑتا۔ مگر اس کی بجائے جو دوسرا راستہ اپنایا گیا ، اس نے اپوزیشن کو نئی زندگی دے دی۔سودوزیاں کے سیاسی ماہرین اسے کسی بھی طرح حکومت کے حق میں بہتر قرار نہیں دیں گے۔ایسا ہر معاملہ حکومت کے لئے خسارے کا باعث بنتا ہے اور اپوزیشن کی پتنگ اوپر چڑھ جاتی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف جب میٹروبس سروس کا افتتاح کرنے ملتان آئے اور تقریب سے خطاب کررہے تھے تو ہال میں کچھ لوگوں نے عمران خان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ انہوں نے فوراً انہیں روکا اور کہا ہم کسی کو برا کہنے کے حق میں نہیں، ایسے لوگوں کا فیصلہ خود تاریخ کرتی ہے۔ کاش وہ یہ بات اپنے وزیروں اور مشیروں کو بھی سمجھائیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں وہ کچھ کر گزرتے ہیں کہ اپنا ہی دامن جلنے لگتا ہے۔ پاناما لیکس کا اونٹ تو اب عدالتی فیصلے کے ذریعے ہی کسی کروٹ بیٹھنا ہے، پھر اس پر اتنا ہنگامہ کیوں ہے اور ہم دنیا کے سامنے جگ ہنسائی کا باعث کیوں بن رہے ہیں؟