ایوانوں اور میدانوں میں حقیقی جمہوری طرز عمل کی ضرورت!
تجزیہ:چودھری خادم حسین
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی میں ہونے والے ہنگامے پر اپنے ہی انداز میں تبصرہ کیا اور کہا کہ جمہوریت میں حکومت کو سب برداشت کرنا پڑتا ہے اور اگر یہ نہیں تو اس اسمبلی کو ہی لپیٹ دو، وہ خود تو اسمبلی میں آتے نہیں اور اس کے بارے میں انہوں نے پہلی بار تو ایسا نہیں کہا، اس سے پہلے بھی کہتے چلے آئے ہیں، بہر حال سپیکر قومی اسمبلی اس واقعہ کی تحقیقات کرانا چاہتے ہیں اس لئے ہم اس پر کوئی رائے نہیں دیتے، لیکن یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی اچھا عمل نہیں ہے، جب وزیر اعظم کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرنے کے فیصلے کی خبر آئی تو ہم نے انہی سطور میں خبر دار کردیا تھا کہ سپیکر پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے اور ان کو اسے احسن طریقے سے نبھانا ہوگا ان کے پاس دو تین آپشن تھے، ایک یہ کہ اسے چیمبر میں ختم کردیتے، دوسرے براہ راست ایوان میں پیش کرکے رائے لیتے اور رائے شماری میں یہ مسترد ہو جاتی، تیسرا یہ تھا کہ وہ پہلے تجربے کی طرح نقطہ اعتراض (پوائنٹ آف آرڈر) پر بول لینے دیتے اور تحریک کو غیر ضروری قرار دیتے کہ آرٹیکل 66 کے تحت ان کا بھی استحقاق بنتا ہے اور ایوان میں کی گئی بات پر ایسی تحریک پیش نہیں ہو سکتی، سپیکر نے غالباً تیسرا طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کی ۔
سید خورشید شاہ بول لئے تو شاہ محمود قریشی کی باری آگئی، انہوں نے نعرے لگوائے اور ماحول جلسہ گاہ کا بن گیا، باقی سب اس فوٹیج میں موجود ہے جو ایوان کی کارروائی ریکارڈ کرتی ہے ، تحقیقات کے دوران اس سے سب واضح ہو جائے گا، ویسے شاہ محمود قریشی بہت ’’محتاط‘‘ ہیں وہ یہاں سے بھی اسی طرح کھسک لئے جیسے دھرنا پارٹ ٹو کے موقع پر ایک کارکن کے احتجاج کے موقع پر چل دیئے تھے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ حزب اقتدار والے حضرات کو بہت ہی زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا اگر وہ یہ سمجھتے تھے کہ جان بوجھ کر کسی حکمت عملی کے تحت ایسا کیا جارہا ہے تو کانوں میں روئی ٹھوس لیتے اور سپیکر کو ایوان کے وقار کا خیال رکھنے دیتے ،بہرحال ان کا موقف تو یہ ہے کہ قیادت کے بارے میں ایسا ہنگامہ اور گفتگو برداشت نہیں کی جاسکتی۔قومی اسمبلی میں تو جمعرات کو یہ ہوا، اسی روز پشاور میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان ایسا ہی تنازعہ ہوگیا، اس سے بھی پہلے سندھ اسمبلی میں خاتون رکن کے بارے میں ریمارکس کا شور ہوا جو وزیر موصوف کے معافی مانگ لینے پر منتج ہوا، وہاں فرق یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کی بہنوں بختاور اور آصفہ نے بہت برا منایا اور معافی مانگنے کی ہدائت کی تھی، قومی اسمبلی میں ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا، بلکہ یہ اندازہ ہوا کہ حالات خراب کئے جارہے ہیں۔
ایوانوں میں ہنگامے کوئی عجوبہ نہیں، ہمسایہ حریف ملک بھارت میں بھی ہوتے ہیں جبکہ اٹلی اور جاپان تو دنیا بھر میں شہرت کے حامل ہیں، اور اب تو امریکی کانگرس اور سینٹ کے اجلاسوں میں بھی ٹرمپ ٹرمپ ہوگا اور ہنگاموں کی توقع رکھنا چاہئے کہ حالیہ اقدامات اور ارادوں کی روشنی میں سخت تنقید شروع ہو چکی ہے، جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں کے حالات مختلف ہیں، ان کے حوالے سے انہی سطور میں ابھی گزشتہ روز عرض کیا تھا کہ افہام و تفہیم کا ماحول لازمی ہے، بھارتی متعصب وزیر اعظم مودی کی حرکات اور حکمت عملی کو سامنے رکھنا چاہئے اور اب تو امریکی صدر ٹرمپ اپنے کہے ہوئے کے مطابق عمل بھی شروع کر چکے ہیں حتیٰ کہ ان کو تو خود عیسائی مذہبی راہنماؤں نے ہٹلر سے مشابہت دے دی اور اسی انجام کی بھی نشان دہی کی کہ وہ (ہٹلر) دنیا کو برباد کر کے خود ہی ’’خس کم جہان پاک‘‘ ہو گیا تھا، ان حالات میں آنے والے دور کا اندازہ کر کے ہی ہمیں اپنا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے، یہ عمل خیال ہو گیا ہے کہ پاناما والے تھیلے سے کوئی بلی برآمد نہیں ہوگی، اب تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف والوں کو شاید ایسا ہی نظر آرہا ہے، بہر حال اب تو جو کرنا ہے عدالت نے کرنا ہے ہم اور آپ کون ہیں، انتظار کرنا چاہئے اور اگر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے تو پھر اس وقت فریقین کو ایسا حوصلہ بھی دکھانا ہوگا ۔
امریکی صدر نے جن ممالک کو زیر غور رکھنے کو کہا ان میں پاکستان اور افغانستان کو بھی شامل کر لیا ہے، مودی خوش ہے کہ یہ کوئی غیر اہم یا چھوٹی بات نہیں، اگر پروپیگنڈے کے زور پر پابندی کے لئے کچھ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تو بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں کہ پاکستانی بہت بھاری تعداد میں امریکہ میں موجودہیں۔کیا یہ ٹرمپ ہمارے لئے بد سے بدتر والا نہیں کہ ہم تو مودی ہی سے تنگ ہیں ادھر سے یہ دونوں مل گئے ہیں، ہماری سب کی آنکھیں کھلتی چاہئیں، کبوتر بلی و الا معاملہ نہیں، صرف لڑائی ہی کوئی مسئلہ نہیں اندرونی خلفشار بھی سامنے ہونا چاہئے کہ ابھی حال ہی میں گلگت بلتستان سے 25افراد ’’را‘‘ کے ایجنٹ ہونے کی وجہ سے پکڑے گئے، وزیر داخلہ نے بھی کہا کہ ’’را‘‘ اور ملک دشمن لڑائی بلوچستان میں لڑنا چاہتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوں گے، ایسے ہی خیالات کا اظہار بلوچستان حکومت کے ترجمان انوارالحق نے لاہور پریس کلب کے پروگرام ’’میٹ دی پریس‘‘ میں کیا ان کے مطابق بلوچستان میں حکومتی( وفاقی+صوبائی)پالیسیوں کی وجہ سے بہت بہتری آئی ہے تاہم بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ اور دوسرے دشمن بھی سرگرم عمل ہیں، تو کیا یہ قابل غور نہیں، کیا بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لے تو خطرہ ٹل جاتا ہے؟ اس خطرے کا مقابلہ تو ہمیں خود ہی کرنا ہے اور اس کے لئے اتفاق رائے چاہئے، پیپلز پارٹی کے زرداری اور خورشید شاہ کو گالی دے لیجئے لیکن ان کا جذبہ تو صادق ہے، اس کی قدر یوں کی جاسکتی ہے کہ ایوانوں میں اور میدانوں میں سب کا طرز عمل جمہوری ہو۔
طرز عمل