عالم بالا سے زینب بنام پاکستانی قوم
توآخر کار 14 روز کی تگ و دو کے بعد پولیس نے میرے درندہ صفت قاتل کو گرفتار کر ہی لیا۔ ایک ایسا قاتل جو درندوں سے بھی زیادہ خوفناک تھا۔ میں جب آپ کی دنیا میں تھی تو مجھے ماما پاپا نے کبھی بھی نہیں مارا تھا، کیوں کہ میں ہلکی سی چوٹ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی لیکن میرے اس سفاک قاتل نے میرے جسم کی کئی ہڈیوں کو نہایت بے دردی سے توڑا جس کی وجہ سے مجھے جو تکلیف ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔
میری ناک اور کلائیوں کی ہڈیاں توڑی گئیں۔ میری زبان کو کاٹا گیا کئی دن تک میں اس درندے کے ظلم کو سہتی رہی مگر افسوس! کہ پاکستان کی پولیس بھی میری مدد کو نہ پہنچ سکی۔ مجھے میری سکول ٹیچر نے بتایا تھا کہ ہماراپیارا ملک پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے بہت بڑا طاقت ور ملک ہے جہاں کی پولیس اگر مجرم ڈھونڈنا چاہے تو فوراً ہی ڈھونڈ لیتی ہے لیکن میں کئی دن تک زخمی حالت میں یہ سوچتی رہی کہ کیا میں اس طاقت ور ملک کی بیٹی نہیں ہوں جہاں پولیس بھی ہے عدالتیں بھی ہیں اور میڈیا بھی۔
میری زندگی کتنی خوبصورت تھی بالکل نرم و نازک تتلی کی طرح میں اپنے گھر میں اپنے پیاروں کے درمیان گھومتی رہتی تھی میرے ماماپاپا مجھے پیار سے گڑیا کہتے تھے، میرے بہن بھائی مجھ پر جان چھڑکتے تھے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی گڑیا کو کسی دن کوئی درندہ اس قدر بے دردی سے کچل ڈالے گا۔
جب وہ سفاک شخص مجھ پر ظلم کر رہا تھا تو بار بار میں نے اس سے پوچھا انکل! آپ مجھے کیوں مار رہے ہیں لیکن میرے ہر سوال کے جواب میں مجھے مزید اذیت کا نشانہ بنایا جاتا۔ آخر کار مجھے گلا گھونٹ کر مار دیا گیا اور میری لاش کو کوڑے کے ڈھیر کی نذر کر دیا گیا۔
جب میں یہاں جنت میں پہنچی تو مجھے بہت سارے انکل اور آنٹیوں نے بتایا کہ زینب بیٹا پورے پاکستان میں تمھارے لئے صدائیں بلند ہو رہی ہیں، تمھارے دنیا سے چلے جانے کے غم نے پورے پاکستان کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے تو میں سوچنے لگی کہ اتنے سارے لوگ میرے ساتھ تھے
تومجھے پھر اتنی آسانی سے درندگی کا نشانہ کیوں بنا دیا گیا۔ میں یہاں جنت میں بہت مزے سے رہ رہی ہوں کہ یہاں کوئی کسی کو ہوس بھری یا نفرت کی نگاہوں سے نہیں دیکھتا، ہر کوئی دوسروں سے پیار کرتا ہے اور مجھے تو خصوصی توجہ اور بے پناہ محبت مل رہی ہے۔
میرے پاپا اکثر جن فرشتوں کا ذکر کرتے تھے وہ میرا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں میری ہر خواہش پوری کرتے ہیں یہاں مجھے اب کسی قسم کا کوئی خوف نہیں لیکن میں اپنی قوم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں تاکہ میری طرح کوئی اور کلی اس بے دردی سے نہ مسلی جا سکے۔
میں اپنے تمام سیاست دان انکلوں سے درخواست کرتی ہوں کہ خدا کے لئے پاکستان میں موجود تمام بچوں کے تحفظ کے لئے نہایت سخت قوانین جلد سے
جلد بنا دیں اور اس کے لئے پورے ملک کے نظام کو اس قدر بہتر بنادیں کہ آئندہ کوئی بچہ اغواء نہ ہو سکے۔ مجھے اہل جنت نے بتایا ہے کہ دنیا میں بہت سارے ملک ایسے بھی ہیں جہاں اکیلا دیکھ کر بھی کوئی کسی بچے کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
آپ خدارا! پاکستان میں بھی ایسا ہی نظام نافذ کر دیں ۔ اتنا بڑا ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک کیا اپنے معصوم بچوں کو تحفظ بھی فراہم نہیں کر سکتا اور میرے پاپاماما جوکہ خود مذہبی لوگ ہیں اس لئے ہمیشہ انہوں نے مجھے یہی بتایا کہ جو لوگ حمد اور نعت پڑھتے ہیں وہ بڑے اچھے لوگ ہوتے ہیں لیکن میرا قاتل عمران بھی تو نعتیں اور قوالیاں پڑھنے والا ایک شخص تھا، اس کا ایک ساتھی جو اس کے جرم میں برابر کا شریک تھا وہ بھی تو بظاہر دین دار انسان لگتا تھا لیکن پھر بھی ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا؟ میرا پورے پاکستان
سے یہ سوال ہے کہ جب ہمارا دین اتنا اچھا ہے تو پھر اس دین کو ماننے والے اتنے گندے کیوں ہیں۔ یہاں آکر مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان میں ہر روز 13بچوں کے ساتھ اس قسم کی زیادتی اور ظلم ہوتا ہے اور مجھے یہ بھی جنت کے لوگوں نے بتایا ہے کہ پاکستان کا اس حوالے سے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
میرے پاپا نے تو مجھے یہ بتایا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور لفظ پاکستان کا مطلب بھی ہے ’’پاک زمین‘‘ تو پھر اتنی پاک جگہ پر عمران جیسا گندا شخص اتنے سالوں سے معصوم بچوں پر ظلم کیوں کر کرتا رہا۔ کسی نے اسے روکا کیوں نہیں، ایک مجرم پاکستان بھر کے نظام کو دھوکہ کیسے دیتا رہا؟
میں پاکستان بھر کے بچوں سے بھی کہتی ہوں کہ خدا کے لئے کبھی بھی اپنے گھر والوں کے علاوہ کسی کے ساتھ کہیں نہ جائیں اور میں تمام بچوں کے ماما پاپا سے بھی کہتی ہوں کہ پلیز!کبھی بھی اپنے بچوں کو اکیلا نہ چھوڑیں۔
میں پاکستان کے نیک نام چیف جسٹس انکل ثاقب نثار سے گزارش کرتی ہوں کہ جس قدر تکلیف اور ظلم کے ساتھ مجھے مارا گیا ہے اسی طرح اذیتیں دے دے کر میرے قاتل کو بھی مارا جائے۔
محض پھانسی کی سزااس کے جرم کے سامنے کافی نہیں، یہاں کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ اس قاتل کو بھی دوسروں قاتلوں کی طرح خاموشی سے کسی جیل میں پھانسی دے دی جائے گی کیوں کہ پاکستان کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے لیکن انکل سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 33 میں اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے کہ اس قسم کے قاتلوں کو سرعام اور بے دردی سے قتل کیا جائے تاکہ دوسروں کے لئے سامان عبرت بنیں۔
پیارے انکل! میں آپ کی مظلوم بیٹی زینب آپ سے اپیل کرتی ہوں کہ خدارا! میری یہ گزارش مان لیں کہ میرے اس قاتل کو سرعام پھانسی پر لٹکائیں تاکہ آئندہ کوئی اور زینب کسی کی درندگی کا شکار نہ ہو سکے۔
انکل آپ سب کوشش کے باوجود میری جان تو نہ بچا سکے لیکن پلیز! میری یہ بات تو مان جائیں کہ قانون میں تبدیلی کرکے سرعام اس سفاک قاتل کو پھانسی پر لٹکایا جائے، انکل آپ میری یہ بات تو مانیں گے نا۔۔۔آپ کی بیٹی زینب۔۔۔عالم بالاسے۔۔۔