رستہ دو۔۔۔رستہ لو

رستہ دو۔۔۔رستہ لو
رستہ دو۔۔۔رستہ لو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نوازشریف کو نظریہ کہیں یا سوچ، کچھ نہ کچھ ہے ضرور۔ اس کچھ نہ کچھ نے بہت کچھ کر دکھایا۔ نوازشریف کے ساتھی جس خام خیالی میں تھے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے سب کا بھرم ختم کر دیا اور اس میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز بھی شامل تھے۔

مسلم لیگ (ن) کا ووٹر کبھی اقتدار سے ہٹ کر کم ہی سوچتا ہے، لیکن اس بار تو ایسا لگ رہا ہے، جیسے پنجاب کی ’’اکڑ‘‘ بھی شاید ہزاروں من مٹی کے نیچے سے انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور اس ’’اکڑ‘‘ نے نوازشریف کو اٹھنے پر مجبور کیا۔


اگرچہ بیٹی باپ کی آوازکو دو آتشہ کر رہی ہے، لیکن اصل علامت تو نوازشریف ہی ہیں، وہ جو پیچھے رہ کر کام کررہے ہیں اور کرتے ہی چلے جا رہے ہیں، وہ ایسے نہیں تو ویسے اب پنجاب کی اٹھان کو مان رہے ہیں۔

حلقہ ایک سو بیس کا انتخاب ایک طرح سے آنکھوں میں گزارا۔ بہت کچھ بہت قریب سے دیکھا۔ بڑے بڑے دعوے کرتے، شرطیں لگاتے اور مبارکبادیں دیتے ہوئے لوگوں کو دیکھا۔


لائن کھینچ دی گئی ادھر ہو یا اُدھر۔ پوزیشن واضح کرو۔ لاہوریوں کو اس قدر تناؤ میں کبھی نہیں دیکھا۔ پھر وہ سب کچھ کیا گیا جو کیا جا سکتا تھا۔ ہاں لوگوں کے دلوں کو بدلنے والی تو خدائے واحد کی ذاتِ بابرکات ہے۔ انتخابی عمل ختم ہوا۔

ابھی نتیجہ بھی نہیں آیا تھا کہ گوالمنڈی میں وہ مناظر دیکھے جن کا پنجاب میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ ٹرک روک لئے گئے۔ لوگ اوپر چڑھائے گئے۔ پھر کیا تھا ٹرکوں سے لاہوریوں کے لیڈر کے نعرے لگے تو لوگ پیچھے ہٹے۔

یہ تو تھا صرف لاہور کا احوال۔ باقی جاننے والے تو سب جانتے ہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں، تیور چڑھ رہے ہیں۔ اب کریں تو کریں کیا؟سرجوڑ کربیٹھے ہیں۔ اب پیغام پہنچایا جا رہا ہے کہ شہبازشریف تک رستہ دو اور رستہ لے لو۔

شہبازشریف کے سامنے ان کے بڑے بھائی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ رستہ دیں گے تو ان تک پہنچا جا سکے گا۔ نہیں تو پھر نہیں۔نوازشریف اپنی سوچ کی پذیرائی پر مطمئن ہیں، لیکن پارٹی کے اندر کچھ بے چین لوگ بھی موجود ہیں، انہیں ادب میں کہتے ہیں۔

تعلی کا شکار، تعلی کے شکار اس گروپ میں بے چینی اس قدر ہے کہ وہ پارتی میں تقسیم کی خبریں پھیلانے لگا ہے اور یہی لوگ مخالفین کی امیدوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

سیاست عملاً نواز فیملی کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ بدخواہ اندرونی اختلافات پر کان لگائے بیٹھے ہیں تو سیاسی مخالف بھی پھوٹ پڑنے کی خبر جلد سے جلد سننے کو بے تاب ہیں۔ بات کرنے والوں کو اندر کے حالات کا بخوبی علم ہے، انہوں نے بظاہر ایک بڑی ’’معقول‘‘

پیش کش کی ہے۔ شہبازشریف تک رستہ مانگنے کا مطلب شہبازشریف کو مانگنا کر نوازشریف سے علیحدہ کرنا ہے، لیکن کیا کریں میاں شریف کا اثر قبر سے اتنا ہی پر اثر ہے کہ چھوٹا بڑے سے بغاوت کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔

ہاں نوازشریف کے ماضی پر نظر رکھنے والے پیش کش قبول کئے جانے کو مسترد نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا موقع بھی آئے کہ واضح طور پر کہا جائے ’’رستہ دو‘‘ اور ’’اپنا رستہ لو‘‘۔

مزید :

رائے -کالم -