شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 14

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ ...
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 14

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چھٹے روز میں صبح سویرے ناشتے کے بعد رائفل سنبھال کر روانہ ہونے ہی کو تھا کہ دو دیہاتی بد حواسی کے عالم میں بھاگے ہوئے آئے اور بیان کیا کہ یہاں سے تقریباً تین میل شمال کی طرف شیر نے ان دونوں کا تعاقب کیا،لیکن انھوں نے مشعلیں جلالیں جو وہ اسی مصلحت سے ساتھ لائے تھے۔آگ کی وجہ سے شیر کو ان کے پاس آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

میں نے فوراً لوگوں کو ہانکے کے لئے تیا ر کیا اور ایک گھنٹے کے اندر ہی پچاس آدمیوں کو ساتھ لے کر وہاں آپہنچا۔یہاں جنگل اتنا گھنا نہیں تھا اور درخت بھی زیادہ تناور نہیں تھے ۔جس پگڈنڈی پر ان دیہاتوں نے سفر کیا تھا ،وہ ایک پہاڑی کے دامن سے گزرتی تھی۔دیہاتیوں کے بیان کے مطابق میں نے ماگھ کا جا ئزہ لیا تو ان کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ماگھ کا رُخ پہاڑی کی طرف ہوگیا تھا ۔لہٰذامیں نے ہانکے والوں کو اس پہاڑی کے دوسری طرف لے جا کر ان کی باقاعدہ قطار قائم کی اور دِلاور اور عبدالرحیم کو ان کا نگران مقرر کیا۔مسعودومحمود کو اسٹاپ مقرر کرکے درختوں پر بٹھادیا۔اس کام سے فارغ ہو کر میں پگڈنڈی کے قریب ایک جھاڑی میں چھپ کر بیٹھ رہا۔
دس بجے ہانکا شروع ہوا اور ساڑھے گیارہ بجے ہانکے والے پہاڑی پر چڑھ کر میری طرف اتر آئے۔پہاڑی پر جو رِیچھ ،سانبھر ،چِیتل وغیرہ تھے ،وہ سب میرے سامنے سے گزرے ،لیکن شیر کا کوئی پتہ نہ چلا ۔جب ہانکے والے میرے پاس پہنچ گئے تو میں جھاڑی سے نکلا اور ہم سب مایوس ودل برداشتہ گاؤں کی طرف چلے۔
پالی پور آنے کے لئے ہمیں کئی نالوں سے گزرنا پڑتا تھا ۔ابھی میں دو تین سو گز ہی چلا تھا کہ بندروں کے گھگیانے کی آواز آئی ۔میں فوراً ٹھہر گیا۔گاؤں والے کچھ فاصلے پر پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے ۔
میرے رُکتے ہی وہ بھی ٹھہرگئے ۔میں نے زمین کا جائزہ لیا اور ماگھ تلاش کرتا ہوا ایک نالے میں اُتر گیا۔یہ نالہ پہاڑی کی طرف سے آرہا تھا ۔میں نالے پر اُتراہی تھا کہ ماگھ پر نظر پڑی ۔بالکل تازہ ماگھ۔شیر اُدھر سے دو سیکنڈ پہلے ہی گزرا ہوگا ۔اور نالے کے اندر اندر اس طرف گیا تھا ،جدھر سے ہم لوگ واپس آرہے تھے ۔اس کا یہ مطلب ہوا کہ شیر ہانکے کی قطار سے دبک کر نکلا اور نالے کے اندر اندر بے فکری سے ٹہلتا اُدھر نکل گیا۔
میں نے ایک لمحہ غور کیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اتنے جمِ غفیر کو ساتھ لے کر شیر کا تعاقب نا ممکن ہے ۔اگر گاؤں والوں کو چھوڑ کر میں نالے کے کنارے کنارے آگے نکل جاؤں اور شیر کو میری طرف ہانکا جائے تو شاید کامیابی ہو۔میں نے فوراً مجلس مشاورت منعقد کی ۔میرے نظریے سے سب متفق تھے۔چنانچہ میں دِلاور کو ساتھ لے کر چکر کاٹتا ہوا کوئی چھ فرلانگ آگے گیا اور اس مقام پر جہاں گاڑی کا راستہ نالے کو پار کر تا ہے اور دونوں کنارے نیچے ہوگئے ہیں ،ٹھہر گیا۔میں نے ہانکے کے لیے وقت مقرر کر دیا تھا ۔اِدھر میں ایک چٹان کی آڑ میں ٹھہرا اور اُدھر ہانکا شروع ہوگیا۔ہر لمحہ یہ خیال ہوتا کہ اب شیر سامنے آیا کہ آیا۔
میں نالے کے اندر نظریں جمائے رائفل کو چشم زدن سے بھی کم عرصے میں شانے پر لا نے کے لیے تیار بیٹھا تھا ۔جوں جوں ہانکے کی آواز قریب ہو تی جاتی توں توں بے چینی اور جوش میں اضافہ ہو جاتا تھا۔قلب کی حرکت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ میں نے سوچا ،نشانہ خطانہ ہو جائے۔اس خیال سے میں نے جسم کودو لمحوں کے لیے ڈھیلا چھوڑدیا ۔اس سے اعصاب پر اچھا اثر ہوا ۔اسی وقت نالے کے اندر پتھر گرنے کی آواز آئی اور میں نے رائفل شانے سے لگالی ۔
یقیناًشیر اب سامنے آمنے کو تھا ۔دو لمحے اسی حالت میں گزرے ۔کوئی چیز سامنے نہ آئی۔دِلاور میرے پیچھے بیٹھا مخالف سمت کی نگرانی کر رہا تھا ۔دو چار لمحے اور گزرے اور پھر نالے کے اندر کسی جانور کے نرم ریت پر دوڑنے کی آواز آئی ۔لیکن آواز ظاہر کرتی تھی کہ کھردار جانور ہے۔درندے کی ہتھیلیاں گدی دار ہوتی ہیں۔اس کے دوڑنے کی آواز کھردار جانور کی آوازِ پا سے الگ ہوتی ہے۔
ذرا دیر بعد ہی ایک بد حواس سانبھر بھاگتا ہوا سامنے آیا۔اس کا سر پشت کی طرف مڑا ہوا تھا اور سارا جسم تیز بھاگنے کے لیے پوری طرح مستعد تھا۔ایسی حالت کسی درندے کو دیکھنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور اس وقت نالے کے اندر شیر کے سوا اور کوئی درندہ نہیں ہو سکتا تھا۔
سانبھر اسی ہئیت سے بھاگتا ہوا مجھ سے کوئی چالیس گز پر نالے کے اندر ہی ٹھہرگیا اور پیچھے دیکھنے لگا۔اس کے سینگ غیر معمولی بڑے تھے ۔اگر مجھے شیر کا انتظار نہ ہوتاتو اس سانبھر کو ہر گز نہ جا نے دیتا ۔ایسے بڑے سینگ اتفاق سے ہی میسر آتے ہیں ۔بہر حال یہ منظر چند ہی لمحے قائم رہا۔کیونکہ اس کے بعد سانبھر نے گر دن گھمائی اور نالے سے نکل کر پہاڑی پر چڑھ گیا۔میں پھر بھی شیر کی آمد کا منتظر رہا ۔ہانکے والے اب بمشکل ایک فرلانگ پر ہوں گے۔گویا اب شیر نکلنے ہی کو تھا ،لیکن یہ انتظار بھی مایوسی پر ختم ہوا۔ہانکے والے قریب آگئے، لیکن شیر کا کوئی پتہ نہ تھا۔
میں جھلا کر اٹھا اور نالے کے کنارے کنارے گاؤں کی ظرف چلا ۔لیکن تین چار سو گز چل کرایک جگہ ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔یہاں نالے کے کنارے زیادہ اونچے نہیں تھے ۔کنارے کی کُھرچی ہوئی مٹی اور دوسرے نشانات سے ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے کسی جانور نے اوپر چڑھنے کی کوشش کی ہے ۔یہیں پخی کھچی مٹی کے قریب تازہ ماگھ موجود تھے ۔(جاری ہے)

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 15 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں