وزیراعظم صاحب ذرا سوچئے۔۔۔۔!
سیاست تحمل، برداشت، بصیرت، بردباری، دوراندیشی، حکمت عملی اور تدبر کا نام ہے، سیاست میں دشمنی نہیں ہوتی۔ اس میں اخوت، محبت، بھائی چارہ اور خلوص ہوتا ہے۔ لفظوں میں تلخی نہیں، مٹھاس ہوتی ہے، سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس حکمران نے بھی سیاست میں حرف آخر کو اپنایا، وہ خود حرف مکرر کی طرح مٹ گیا، سیاست میں دروازے بند نہیں کئے جاتے بلکہ بند دروازوں کو بھی کھولنے کی گنجائش رکھی جاتی ہے۔ تحریک انصاف نے گزشتہ اڑھائی سال میں جس سیاسی حکمت عملی کو اپنایا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک آج تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ ملک میں مہنگائی، لاقانونیت، غنڈہ گردی، بیروزگاری اور بے راہ روی عروج پر ہے۔ سٹریٹ کرائمز بڑھ رہے ہیں۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ بداخلاقی کے واقعات عام ہورہے ہیں۔ عوامی فلاح کے کام قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور حکمران سب اچھا ہے، سب اچھا ہے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ملک میں یہ ہو کیا رہا ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب راقم بھی آپ ہی کی جماعت کا ایک مخلص کارکن تھا، تحریک انصاف میں میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا آپ اس سے بخوبی واقف ہیں، میرے اور تحریک انصاف کے دوسرے بہت سے کارکنوں کی طرح خود آپ کے بھی بہت سے خواب تھے کہ حکومت ملی تو یہ کریں گے، وہ کریں گے، ضروری نہیں کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہائی جاتیں، ارے کچھ تو بہتری ہوتی، یہاں تو لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر صرف ایک مرتبہ سوچیں کہ آپ وہی بلند بانگ دعوے کرنے والے عمران خان ہی ہیں، ارے آپ بھی قوم کو اڑھائی سال لالی پاپ ہی دیتے رہے، ارے آپ سے تو کئی درجے بہتر مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، کم از کم لوگ سکون کی نیند تو سو رہے تھے۔ ملک عدم استحکام کا شکار تو نہیں تھا۔
بقول آپ کے ترقی مصنوعی ہی سہی لیکن ملک ترقی کی جانب گامزن تو تھا۔ آپ ہی کہتے تھے، جس ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے اس ملک کے حکمران چور ہوتے ہیں، آج ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کا کارکن گلی، محلے میں لوگوں سے منہ چھپانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کے وزیر اور مشیر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گھاس تک نہیں ڈالتے۔ سوچیں خود آپ نے ان اڑھائی سال میں کتنی دفعہ اپنے کارکنوں سے ملاقات کی ہے۔ بقول آپ کے پی ٹی آئی تو عام آدمی کی جماعت تھی، کیا آپ کا کوئی ایک بھی وزیر، مشیر ایسا ہے جو عام آدمی ہو؟
وزیر اعظم صاحب کہنے اور کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ الزام لگانا آسان اور عمل کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے اور کسی کو آئینہ دکھانا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔کیا آپ قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ این آر او کسے کہتے ہیں۔ کیا آپ قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ آپ نے میاں محمد نواز شریف کے علاوہ جیلوں میں بیمار اور کتنے قیدیوں کو ترلے منتیں کر کے جیل سے نکال کر،ان کے لئے فضاء ہموار کر کے انہیں بیرون ملک علاج کے بھیجا؟ کیا آپ قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ اپوزیشن کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے قومی خزانے سے اب تک کتنی رقم خرچ کی جا چکی ہے؟ کیا آپ قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ جن دنوں براڈشیٹ کا فیصلہ آنا تھا، برطانوی ہائی کمشنر کے اکاؤنٹ میں 29 ملین ڈالر کیوں رکھے گئے تھے؟ اور ایک ایسے وقت میں جب ملک معاشی ابتری کا شکار ہے، اگر 29 ملین ڈالر پاکستان میں ہوتے تو ملک کی معاشی حالت کچھ تو بہتر ہوتی۔
وزیراعظم صاحب قوم کو بیوقوف نہ سمجھیں، اپنے نااہل مشیروں کے مشوروں پر حالات کو اس سطح پر نہ لے جائیں کہ جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ اپنے اوپر نہیں تو کم ار کم پی ٹی آئی کے کارکنوں پر رحم کریں۔ آپ کے کان بھرنے والے آپ کے وزیر اور مشیر آپ سے جو کام کروا رہے ہیں، اس سے ملک تباہی کی طرف جارہا ہے۔ ملکی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے۔ قوم بے وقوف نہیں ہے۔ اپوزیشن کی گرفتاریاں اور انہیں نیب کے نوٹس، نہ نیب آج بنی ہے اور نہ مولانا فضل الرحمن یا دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے آمدن سے زائد اثاثے آج کے ہیں، حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں، بدلتی ہوا کے رخ کو پہچانیں، کہیں لینے کے دینے نہ پر جائیں۔
حکومتی اقدامات کے نتیجے میں اپوزیشن ہیرو بن رہی ہے اور عوام میں مقبول ہو رہی ہے۔آپ کے مشیروں کے بے سروپا بیانات سے آج مریم نواز صف اول کی سیاستدان بن چکی ہیں، مریم نواز خاموش تھیں تو ان پر طنز کے تیر چلائے جاتے تھے۔اب وہ بول رہی ہیں تو حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ اگر اگلے اڑھائی سال بھی ایسے ہی گزارنے ہیں جیسے گذر چکے ہیں تو پھر بہتر یہی ہے کہ سینیٹ کے انتخاب اور بجٹ کے بعد نئے انتخابات کروا لیں۔ اپوزیشن کے کندھے کو حکمت عملی، بصیرت اور دوراندیشی سے استعمال کریں۔ پی ٹی آئی کا اس میں نقصان نہیں فائدہ ہی ہو گا اور اگر آپ واقعی ملکی حالات بہتر کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنا دل بڑا کریں، پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کا کردار بڑھائیں، اپوزیشن کے ساتھ معاملات بہتر کر لیں تاکہ ملکی معاملات بہتری کی جانب گامزن ہو سکیں اور عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔