نیب کے خلاف”پروپیگنڈہ“؟
چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کہہ رہے ہیں کہ نیب پروپیگنڈے کے باعث کٹہرے میں آ گیا ہے، مگر دھمکیاں احتساب میں رکاوٹ نہیں بنیں گی،انہوں نے دلچسپ بات کی ہے کہ صرف یہ کہنا باقی ہے کہ کورونا بھی نیب نے پھیلایا ہے۔ نیب کے چیئر مین کی کوششوں اور محنت سے انکار نہیں کیا جا سکتا،مگر عملی طور پر نیب نے پاکستان کے اداروں میں کام کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی ہے اور اس کی گواہی پاکستان کے اداروں کی سامنے آنے والی کارکردگی ہے۔ سیاست دانوں اور سرکاری ملازمین کے بغیر ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے اور یہ دونوں بڑے سٹیک ہولڈرز ہی نیب کے اصل نشانے پر ہیں۔ دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ اس وقت نیب کسی بھی بڑے کیس میں پکڑے جانے والوں کو سزا نہیں دلا سکا اور جب آپ ان کے خلاف بنایا گیا کیس ثابت ہی نہ کر سکیں تو لوگ نیب بارے کیا سوچیں گے؟
متعدد سابق وزرائے اعظم کے خلاف کئی کئی سال تک انکوائری کے باوجود ثبوت نہ ملنے پر کیسز بند ہو چکے ہیں،حال ہی میں نیب نے سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس کی انکوائری بند کر دی، چودھری برادران کی نیب کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران بیورو نے انکوائری بند کرنے کی درخواست دی،یہ کیس چودھری برادران کے خلاف 2000 ء میں درج کیا گیا تھا، ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد نے عدالت کو بتایا تھا کہ چودھری برادران کے مبینہ غیر قانونی اثاثوں سے متعلق نیب کے پاس کافی ثبوت ہیں، لیکن اچانک انہوں نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر آگاہ کیا کہ انکوائری بند کر دی گئی، کیونکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا، چودھری برادران کے خلاف یہ تیسری اور آخری انکوائری بند ہوئی ہے، کیونکہ دو انکوائریاں اس سے پہلے بھی بند ہوچکی ہیں، نیب نے ان کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ، غیر قانونی بھرتیوں اور بینک قرضہ جات کی عدم ادائیگی کے کیس بھی بنائے تھے۔
یہ پہلی بار نہیں جب نیب کی طویل انکوائری کے باوجود ملزموں کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام ثابت نہیں ہوا، اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر مرحوم،یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور کچھ عرصہ پہلے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کے خلاف بھی الزامات کے ثبوت نہ ملنے پرنیب کو کیس بند کرنے پڑے تھے،سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر توشہ خانہ کیس، جبکہ راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس بنایا گیا تھا، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، حکومتی وزرا ء علیم خان اور سبطین خان کے خلاف کئی سال پرانے کیس کھولے گئے تھے۔ البتہ انہیں گرفتاری کے بعد ضمانتیں مل چکی ہیں،سپریم کورٹ نے خواجہ سعد رفیق کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سنایا تھا کہ نیب قانون ملک میں بہتری کی بجائے مخالفین کا بازو مروڑنے کے لئے استعمال کیا گیا اور نیب آرڈیننس اپنے اجرا ء سے ہی انتہائی متنازع رہا ہے،نیب کے امتیازی روئیے کے باعث اس کا اپنا تشخص متاثر ہوتا ہے اور اس کی غیرجانبداری پرعوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔
نیب کے سابق سینئر سپیشل پراسیکیوٹر فرہاد ترمذی کے مطابق نیب آرڈیننس کی شق 18کے تحت نیب کی منظوری کے بغیر کوئی کیس عدالت میں نہیں چل سکتا اور درخواست دہندہ اپنی مرضی سے وکیل کی خدمات لے سکتا ہے نہ ہی کیس دائر کر سکتا ہے، کیس عدالتوں میں نیب کی جانب سے ہی دائر ہوتا ہے اور نیب پراسیکیوٹر ہی درخواست دہندہ کا موقف پیش کرسکتا ہے،لہٰذانیب کے پاس جتنی درخواستیں آتی ہیں ان کے لحاظ سے کیسز کا دبا ؤکافی ہوتا ہے،جبکہ تحقیقات بھی کئی کئی سال چلتی رہتی ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ زیادہ تر کیس سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں، جن میں الزامات تو ثابت نہیں ہوتے، لیکن تاخیری حربوں سے کیسوں کو لٹکایا جاتا ہے جیسے خواجہ سعد رفیق کے خلاف مہنگے انجن خریدنے، ان کے اور ان کے بھائی کے خلاف پیرا گون ہاؤسنگ سوسائٹی کا کیس تین سال تک چلتا رہا، لیکن ثبوت نہ ملنے پر واپس لینا پڑا۔
احتساب عدالتوں میں پیشیاں،اخبارات کی سرخیاں اور ذہنی کوفت کا جو سامنا نیب کے ملزموں کو کرنا پڑتا ہے وہ سزا یافتہ مجرموں کے حصے میں بھی نہیں آتا،نیب نے اب تک جن بیوروکریٹس کو گرفتار کیا ان پر بھی اب تک الزام ثابت نہیں ہو پایا،سیاست دان تو اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر گرفتاریوں سے بچ جاتے ہیں، مگر بیوروکریٹس کو فوری کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے،ذمہ داران کو اس حوالے سے ضرور سر جوڑنا ہوں گے،چیئرمین نیب خود سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں ان کی نگاہ دور بین سے یہ سارا گھن چکر کیسے اب تک بچا ہوا ہے،اس پر ہمیں حیرت ہے،تمام عمر انہوں نے ماتحت عدلیہ کے ناقص فیصلوں،پولیس تفتیشی اداروں کی طرف سے جھوٹے مقدمات کی بیخ کنی کی، مگر ان کے اپنے محکمہ میں ہونے والی دھاندلی پر خاموشی کسی طور قابل ِ قبول نہیں۔
نیب کی ناکامی کی بنیادی وجہ صرف کسی شکائت پر،بنا تحقیق کئے ریفرنس دائر کر کے ملزم کو مجرم بنا دینا اور گرفتاری ڈال دینا ہی اس برائی کی جڑ ہے،اگر ملک میں سرکاری مشینری متحرک اور فعال ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ بد عنوانی کا ارتکاب ہو پائے، مگر جس تعلیم اور تربیت یافتہ،قانون و قواعد سے آگاہ فورس سے قوانین کا نفاذ کرانا ہے وہ خود ناانصافی کا شکار ہے، کرپشن کی ابتدا اندھے اختیارات اور ان کے غلط استعمال سے ہوتی ہے، ناانصافی،عدم تحفظ،غیر یقینی کی صورتحال کرپشن کے ساتھ رشوت،اقربا پروری اور سفارش کی برائیوں کو بھی جنم دیتی ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک بار پھر جائیداد اور اکاؤنٹس کے منجمد کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیدیا ہے،ضرورت ہائی کورٹ کے ریمارکس اور احکامات پر عملدرآمد کی ہے،ورنہ احتساب کے ساتھ نظام انصاف سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔