چیئرمین نیب تقریر اچھی کر لیتے ہیں 

چیئرمین نیب تقریر اچھی کر لیتے ہیں 
چیئرمین نیب تقریر اچھی کر لیتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال تقریر بہت اچھی کر لیتے ہیں۔اس حوالے سے وہ شاید نیب کے پہلے چیئرمین ہیں جو زبان پر قدرت رکھتے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کہاں دِل لبھانا ہے اور کہاں خوف دلانا ہے۔کل مَیں نے اُن کی مکمل تقریر سنی  جو وہ چیمبر آف کامرس میں کر رہے تھے، جس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے تاجروں کو اپنے ماتھے کا جھومر قرار دیا اور انہیں یقین دلایا کہ نیب اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا، اُس پر بار بار تالیاں بجائی گئیں، مگر ساتھ انہوں نے جب یہ تڑکا لگایا کہ تجارت اور ڈکیتی میں فرق ہے تو سناٹا چھا گیا۔ پھر اس کی انہوں نے مثالیں دیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا کر غریبوں کو لوٹا گیا، اُن کی عمر بھر کی جمع پونچی چھین لی گئی، کیا ایسے لوگوں کو  بھی بزنس مین کہا جا سکتا ہے۔ کیا اُن سے نیب کو حساب نہیں لینا چاہئے۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال  میں حسِ مزاح بھی اچھی خاصی موجود ہے۔اُن کی اس بات پر خاصی تالیاں بجائی گئیں کہ نیب پر ہر الزام لگا دیا گیا ہے،اب صرف کورونا کے پھیلاؤ کا الزام دینا رہ گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ تین سال کے دوران نیب نے پونے پانچ ارب روپے لٹیروں سے واپس لئے ہیں، جو ایک ریکارڈ ہے۔


جسٹس(ر) جاوید اقبال کی کوئی باتیں سن لے تو اس بات پرایمان لے آئے کہ پاکستان میں نیب سے زیادہ ایماندار، غیر جانبدار اور موثر ادارہ کوئی نہیں۔ نیب کے بارے میں اُس کے سارے گمان دور ہو جائیں اور وہ یہ بھی مان لے کہ نیب کی وجہ سے ملک میں کرپشن کم ہوئی ہے۔تاہم چیئرمین نیب کی تقریر سننے کا موقع لوگوں کو کم کم ہی ملتا ہے، ہوتا تو یہ چاہئے کہ انہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اظہارِ خیال کے لئے بلایا جائے، جس طرح وہ تاجروں سے خطاب کر رہے تھے،اُسی طرح ارکانِ اسمبلی سے کریں،اُن کے سامنے بھی یہ سوال رکھیں کہ نیب نے آخر کب کسی کو بلاوجہ تنگ کیا ہے۔کیا پانچ سو روپے کی چیز پانچ لاکھ روپے میں خریدنے والوں سے نیب سوال نہ کرے،مگر پارلیمینٹ میں جب کوئی کمیٹی چیئرمین کو بلاتی ہے تو وہ جاتے نہیں۔

وہ بیورو کریسی، تاجروں اور صنعت کاروں سے خطاب میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست دان کچھ منہ پھٹ بھی ہوتے ہیں۔ وہ چیئرمین نیب کو کئی باتوں پر ٹوک بھی سکتے ہیں۔ کئی ایسی مثالیں بھی دے سکتے ہیں،جب نیب نے حکومت کے حق اور اپوزیشن کی مخالفت میں ڈنڈی ماری۔ چیئرمین نیب کے فن ِ خطابت کا اصل امتحان تو وہاں ہو گا جب ڈیسک بجیں گے اور تالیاں بھی بجائی جائیں گی،کبھی حق میں اور کبھی مخالفت میں۔لطف تو تب آئے جب قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کو پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی میں لایا جائے اور اُدھر چیئرمین نیب کو دعوت خطاب دی جائے۔ تب دیکھیں گے کہ چیئرمین نیب شہباز شریف کو  اس بات کا کیا جواب دیتے ہیں کہ نیب سات جنم بعد بھی اُن کے خلاف ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکتا۔ شاید وہ یہ کہیں کہ بھائیو میری مدت تو اکتوبر تک ہے، مَیں سات جنم کا وعدہ نہیں کر سکتا۔


جسٹس(ر) جاوید اقبال  نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی بتایا کہ مختلف احتساب عدالتوں میں بارہ سو ریفرنس دائر ہو چکے ہیں۔اب یہ کام عدالتوں کا ہے کہ  وہ ان کیسوں کا جلد فیصلہ کریں۔ وہ اگر اسمبلی میں خطاب کر رہے ہوتے تو کسی رکن اسمبلی نے اُن سے یہ ضرور پوچھ لینا تھا کہ ان کیسوں کے فیصلے میں تاخیر کی وجہ صرف عدالتیں ہیں یا نیب کا پراسیکیوشن نظام بھی ہے۔ بارہ سو ریفرنس تو دائر ہو گئے کیا ان ریفرنسوں کی پیروی کے لئے نیب کے پاس پراسیکیوٹرز بھی موجود ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں ریفرنسوں کے فیصلے بھی بڑی تعداد میں آنے چاہئیں اس بارے میں بھی چیئرمین نیب کو بتانا چاہئے تھا کہ کتنے کیسوں کا اُن کے تین سالہ دور میں فیصلہ ہوا۔انہوں نے جو پونے پانچ سو ارب روپے برآمد کرائے،اصل میں لوٹی گئی رقم کتنی تھی اور اُس میں کتنی واپس آئی۔

پلی بار گین کا انہوں نے ذکر کیا اور کہا کہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے، مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پلی بار گین کے دوران کرپشن کو روکنے کے لئے کیا ضابطے اور طریقے وضع کیے گئے ہیں۔ اگر پلی بار گین نیب کا صوابدیدی اختیار ہے تو کیا یہ بھی اُس کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ جیسی چاہے ڈیل کرے۔ براڈ شیٹ کے معاملے میں یہ راز کھل چکا ہے کہ نیب چاہے جتنے مرضی معاہدے کرتا رہے۔ ڈیل کی بنیاد اپنی  مرضی سے رکھتا ہے اور اپنی غلطی کے ازالے کی خاطر بغیر جوڑ توڑ کے بھاری جرمانہ بھی ادا کر دیتا ہے۔ نیب کے صوابدیدی اختیارات پر سپریم کورٹ بھی اپنی رولنگ دے چکی ہے کہ انہیں منصفانہ طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔ پلی بار گین کی منظوری اگرچہ نیب عدالت سے لی جاتی ہے، مگر سارا کیس نیب تیار کرتا ہے اور عدالت صرف رسماً اس کی منظوری دیتی ہے۔

اچھا مقرر وہ ہوتا ہے جو اپنی تقریر کا مواد ایسا رکھے کہ اُس کی پکڑ نہ ہو سکے۔یہ خوبی  جسٹس (ر) جاوید اقبال میں موجود ہے۔ وہ پہلے بھی جو تقریریں کرتے رہے ہیں وہ قابل ِ گرفت نہیں تھیں اور اب انہوں نے اپنی حالیہ تقریر میں بھی متنازعہ باتوں سے گریز کیا ہے۔ مثلاً انہوں نے اپوزیشن کے ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا کہ نیب صرف اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرتا ہے، حکومت کے لوگوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ بس وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ نیب کو ہر الزام دیا گیا ہے سوائے کورونا پھیلانے کا الزام دینے کے۔ سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا جسٹس(ر) جاوید اقبال کو بلانے کی بڑی کوشش کرتے رہے،مگر اُنہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ بہتر ہے کہ وہ چیئرمین نیب کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے نہ بلائیں، بلکہ تقریر کی دعوت دیں۔

جسٹس(ر) جاوید اقبال اُسے رد نہیں کریں گے،کیونکہ انہیں تقریر کا شوق بھی ہے اور تقریر کرنے کا ذوق بھی۔ چیئرمین نیب نے کچھ باتیں زیب ِ داستان کے لئے بھی کیں۔ مثلاً اُن کا یہ کہنا کہ جب انہوں نے یہ سنا تاجر نیب کی وجہ سے پریشان ہیں تو اُن کی نیندیں اُڑ گئیں۔ اگر ایسی باتوں سے جسٹس(ر) جاوید اقبال کی نیندیں اڑتیں تو اپوزیشن کے الزامات سے تو بالکل ہی بے خوابی کا شکار ہو جاتے۔ تاجروں نے تو صرف اتنا ہی کہا تھا کہ وہ نیب کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں، جبکہ اپوزیشن تو یہ کہتی ہے کہ ملک میں نیب نیازی گٹھ جوڑ چل رہا ہے،جس کے باعث احتساب یکطرفہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اصولاً تو سیاست دانوں کے پاس جا کر بھی چیئرمین نیب کو یہی کہنا چاہئے کہ اُن کی باتوں نے نیندیں اڑا دی ہیں، مگر یہاں اُن کا بیانیہ مختلف ہوتا ہے کہ نیب کی وجہ سے ملک لوٹنے والوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔


جسٹس(ر) جاوید اقبال تقریر اچھی کر لیتے ہیں،یہ اب ایک تسلیم شدہ امر ہے، لیکن کیا صرف اچھی تقریر کرنے سے کام چل سکتا ہے؟ تاجروں، صنعت کاروں، بیوروکریٹس اور عام لوگوں کے خلاف نیب کی کارروائیوں پر کبھی بھی انگلیاں نہیں اٹھائی گئیں،کیونکہ ان میں کسی انتقامی کارروائی کا شبہ نہیں ہوتا۔ اصل بات سیاست میں آ کر بگڑتی ہے، جب نیب بڑے دعوؤں کے ساتھ کسی سیاست دان کو گرفتار کرتا ہے اور کچھ عرصے بعد وہ شخص عدالتی حکم یا نیب کی وجہ سے باہر آ جاتا ہے۔جب حکومت کے حامی بچ جاتے ہیں اور مخالف رگڑے جاتے ہیں جب چودھری برادران کے کیسز واپس ہو جاتے ہیں اور شریف برادران تختہئ مشق بن جاتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -