پنجاب پولیس اورقبضے کا کاروبار
اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور پولیس کی پنجاب پولیس میں قربانیوں کی ایک لمبی داستان ہے۔ دہشت گردی سب سے زیادہ دھماکے اور پولیس ملازمین پر حملے بھی لاہور میں ہوئے لاہور شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے جرائم میں بھی اضافہ ہوتا رہا مگر کم نفری اور ناکافی سہولتوں کے باوجود پولیس ملازمین نے کافی حد تک ان جرائم پر قابو بھی پایا ان پولیس ملازمین میں کْچھ نام ایسے ہیں جنہوں نے ایمانداری اور جانفشانی سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دی اور کئی خطرناک گینگز کو کیفر کردار تک پْہنچایالیکن اس کے ساتھ ساتھ لاہور پولیس کے کْچھ افسران اور ماتحتان کا قبضہ گروپ مافیا سے گٹھ جوڑ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ان افسران اور ماتحتان نے کروڑوں روپوں کی پراپرٹی لاہور میں بنائیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک دفعہ لاہور میں تعیناتی کے بعد زیادہ تر پولیس افسران لاہور چھوڑنے کا نام نہیں لیتے اور باہر سے آنے والے افسران کو لاہورمیں ٹکنے بھی نہیں دیتے لاہور پولیس اور قبضہ مافیا کا گٹھ جوڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔یہاں تعینات ہونے والے زیادہ تر افسران اس مافیا کیساتھ ملکر قیمتی پلاٹوں،اراضی پر قبضہ اور قیمتی تحفے تحائف لیتے رہتے ہیں۔ کچھ اس حوالے سے کافی مشہور بھی ہوئے اور بعض کو یہاں سے ٹرانسفر بھی کردیا گیا مگر پولیس افسران اور قبضہ مافیا کے گٹھ جوڑ کا سلسلہ یونہی چلتا رہا۔۔
کیا وزیر اعظم کو قبضہ مافیا اور پولیس کے گٹھ جوڑ کا علم نہیں جو دندناتے پھرتے ہیں؟ سبھی معلوم ہے حقیقت یہ ہے کہ طاقتور قبضہ مافیا نہیں پولیس افسران رہے ہیں۔پولیس جس کا کام ہر صورت اور ہر حالت میں آئین و قانون کی عملداری کرنا اور کرانا ہوتا ہے جب اس محکمہ کے اعلیٰ افسران بھی قبضہ مافیا کا حصہ بن جائیں تو پھر سسٹم کا خدا ہی حافظ ہے،اکثر پولیس افسران کیلئے لاہور خزانے کی کنجی ہے۔ زیادہ ترپولیس افسران کا فوکس قبضہ مافیا کے ساتھ ملکر قیمتی رقبہ پر قبضہ یا بھاری رقوم،تحفے تحائف وصول کرنے پر ہوتا ہے۔پنجاب پولیس کے سابقہ سمیت موجودہ کئی اعلیٰ افسران نے لاہور سے بھرپور استفادہ کیا اور اس طرح کروڑوں اربوں کی جائیدادیں بنا لیں۔ان پولیس افسران نے کارندوں کے ذریعے ڈیفنس سمیت شہر بھر میں متنازعہ جائیدادوں کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے پلاٹ، ایک اورافسر نے پلاٹ، لینڈ کروزر اور ایک موٹے پولیس افسر نے پلاٹوں پلاٹ کر لئے ہیں۔جو بھی پولیس افسر رائج الوقت بندربانٹ کے قانون کا احترام نہیں کرتا اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پنجاب پولیس کے کئی اعلیٰ افسران بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھو تے رہے۔ پولیس کو ایک بیری کا درخت تصور کیاجاتا ہے جس پر میٹھے میٹھے موٹے موٹے بیر اگتے ہیں۔ کامیاب پولیس افسر وہ بیر پتھر مار کر نہیں توڑتا بلکہ گرے ہوئے بیروں کو چن لیتا ہے۔
کچھ ”بیر“ اپنے استعمال میں لانے کے بعد باقی حصہ تقسیم کر دیتا ہے مگر اب بیری کے درخت پر شیلنگ جاری ہے۔ بیروں کے پرخچے اڑا دیئے گئے ہیں بیریوں کے تناور درختوں کو جڑوں سمیت نکال کر باہر پھینکا جارہا ہے، جسے طاقتور آہنی مورچوں میں بند افسران انجوائے کر تے رہے ہیں۔ ان افسران کا نام اس لئے نہیں لکھ رہا کہ تا کہ ان کی جگ ہنسائی نہ ہو۔ مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب وہ اس کے سامنے کھڑے ہونگے اور اپنے ایک ایک کیے کا حساب دے رہے ہونگے۔سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو اللہ نے موقع عطا کیا ہے کہ وہ قبضہ مافیا کا خاتمہ اور پولیس کا قبلہ درست کر سکیں اگر وہ اس مشن میں کامیاب رہے تو تاریخ میں ان کانام سنہری حروف سے ضرور لکھا جائے گا۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ غلام محمود ڈوگر پنجاب پولیس کی ایک کتاب ہیں اور ولولہ انگیز قیادت کے ساتھ دن رات محنت کے بھی عادی ہیں سپاہی سے لے کر آئی جی پولیس تک سبھی انھیں پسند کرتے ہیں ایسے وقت میں انھیں لاہور تعینات کیا گیا ہے جب پولیس کا مورال انتہائی پستی کو چھو رہا تھا آتے ہی انھوں نے پیار اور محبت کادرس دیتے ہوئے فورس سے وہ کام لیا ہے جو بڑے بڑے تمن خان بھی نہیں لے سکے مگر انھیں اس بات کا خیال بھی ضرور رکھنا چاہیے کہ پولیس اس پکڑ دھکڑکو کہیں اپنا کاروبار نہ بنا لے اوربے گناہ لوگوں کو بھی قبضہ گروپوں کا ساتھی قرار دے کر ان کے گھروں پر چھاپے مارنا شروع کر دے ان عناصر کو ضرور پکڑا جائے جو گنہگار ہیں مگر ان کے رشتے داروں اور اہل خانہ کی پکڑ دھکڑ سے انارکی پھیلے گی اوررہائی کے بدلے پولیس پر کرپشن کے الزام بھی لگیں گے لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ پولیس افسران کو قبضہ گروپوں کے نام پر شریف اور بے گناہ شہریوں کے گھر وں پرچھاپے مارنے سے روکا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی جی پولیس انعام غنی،لاہور پولیس کے سربراہ غلام محمود ڈوگر اور ڈی آئی جی آپریشن تگڑے پولیس آفیسرز اور قانون کی بالا دستی چاہتے ہیں مگرضروری ہے کہ جرائم کی شرح کو بھی کنٹرول کیا جائے۔ شہر میں اس وقت تک امن قائم کر نا مشکل ہے جب تک سی آئی اے کی ٹیم اپنا بھر پور رول ادا نہیں کر پائے گی، سی آئی اے کی موجودہ ٹیم اس حوالے سے ماٹھی اور نکمی دکھائی دیتی ہے،البتہ آپریشن ونگ کی کارکردگی مثالی ہے،آپریشنل ونگ نے علی الصبح کھوکھر پیلس پر شاندار کمانڈو آپریشن کرکے لاہور پولیس کی لاج رکھ لی ہے ناکامی کی صورت میں یہ آپریشن سانحہ ماڈل ٹاؤن والی تصویر پیش کر سکتا تھا، ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمدخان نے انتہائی عقلمندی اور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے مذاحمت کرنے والے سیکروں عناصر کو آپریشن سے قبل ہی حراست میں لیکر آپریشن کی راہ ہموار اور ریاست کی رٹ قائم کرتے ہوئے اپنے اور ادارے کے کمانڈرکاسر فخر سے بلند کیا ہے۔ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کو بھی اسی طرح کام کرنے کی ضرورت ہے۔