ممکنہ سیاسی بحران ....

 ممکنہ سیاسی بحران ....
 ممکنہ سیاسی بحران ....

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کا سیاسی مستقبل غیر ملکی فنڈنگ کیس کے  فیصلے پر منحصرہے لہذا ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کے آثار نمایاں طورپر دیکھے جاسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کےایک بانی رکن اکبر ایس بابرنے سنہ 2014ء میں  الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائرکرتےہوئےحکمران جماعت پرغیرملکی فنڈنگ کا الزام عائد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) نے امریکہ اور برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا چندہ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔
اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔  پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمیشن کو معاملے کی جانچ پڑتال سےروکنے کےلیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی لے لیاگیا پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کو کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیاگیا ۔

واضح رہےکہ مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے  فارن فنڈنگز کے حوالے سے ایک درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس پر سپریم کورٹ نے سنہ 2016ء میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی غیرملکی فنڈنگ کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہےاورالیکشن کمشن کو معاملے کی جانچ پڑتال کا حکم دیاتھا۔

تحریک انصاف کے رکن اسمبلی فرخ حبیب کے مطابق اس وقت پاکستان اور دنیا بھر میں ان کی جماعت کے 40 ہزار سے زیادہ ڈونرز ہیں جو ان کی جماعت کو چندہ دیتے ہیں،ان کے بقول تحریک انصاف تمام ڈونرز کی فہرست الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کے حوالے کر چکی ہے۔
الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے وکیل شاہ خاور نے سکروٹنی کمیٹی میں مئوقف اپنایا کہ اگر ایجنٹس نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی غیر ملکی کمپنی یا شخص سے کوئی چندہ حاصل کیا ہے تو اس کی ذمہ داری ان کی جماعت پر نہیں ہوگی بلکہ اس کی ذمہ داری ان ایجنٹس پر ہوگی اور مقامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیےتاہم جب یہ پوچھا گیا کہ اگر کسی ایجنٹ نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جو فنڈز اکھٹے کیے, کیا وہ رقم پارٹی اکاؤنٹ میں آئی ہے؟ تو اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارٹی کے پاس جو فنڈزآۓ ہیں ان کا آڈٹ کروایاگیاہے۔

 پاکستان مسلم لیگ نواز کے مبینہ طور ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ بھی سنہ2017ء میں الیکشن کمیشن میں زیرسماعت ہے جو کہ فرخ حبیب لے کر آئے تھے۔مسلم لیگ نون پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ جماعت برطانیہ میں بطور ’ایل ایل سی‘ رجسٹرڈ ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں ”روحیل ڈار“ نامی شحص اس جماعت کے لیے فنڈز اکھٹا کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مختلف بین الاقوامی کمپنیوں نے اس جماعت کو فنڈز فراہم کیے ہیں ،اس کے علاوہ اس جماعت پر 70 کروڑ روپے چندہ میڈیا گروپ کو دینے کا بھی الزام ہے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ نواز سے بھی فنڈز کی تفصیلات طلب کر رکھی ہیں۔اسی طرح حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے فنڈز کی جانچ پڑتال کرنے کا معاملہ بھی سنہ 2017ء میں الیکشن کمیشن میں آیا۔ اس جماعت پر الزام عائد کیا گیا کہ سنہ 2008ء کے عام انتحابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک امریکی شہری” مارک سیگل “ جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے امریکہ میں لابنگ کرتے ہیں ان کے ذریعے مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم پاکستان پیپلز پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے۔ پیپلزپارٹی پر یہ بھی الزام ہے کہ بعض غیر ملکی کمپنیوں نے انھیں انتخابات کے لیے فنڈز دیےتھے۔

دراصل پاکستان کی متعدد سیاسی جماعتوں نے امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ترقی یافتہ ملکوں میں لمیٹیڈ لائبلیٹیز کمپنییاں بنا رکھی ہیں جس کے انچارج بیرون ملک مقیم ایسے پاکستانی ہوتے ہیں جن کی دوہری شہریت ہوتی ہے۔ان ذمہ داران یا ایجنٹس کی تقرری فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے۔یہ نمائندے ان ملکوں میں موجود دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں یا جن کے پاس نائیکوپ کارڈ ہے، سے اپنی جماعت کے لیے فنڈز اکھٹے کرتے ہیں اور پھر اُنھیں پاکستان بھجواتے ہیں۔

قانونی نقطہ نظرسے دیکھا جائےتوالیکشن کمیشن ایکٹ سنہ 2017ء کے سیکشن 204 کے سب سیکشن تھری کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نینشل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں البتہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے نائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے، ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ سیکشن 204 کے سب سیکشن فور کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اور اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کو حاصل ہے۔

ممنوعہ غیرملکی فنڈنگ ثابت ہونےکی صورت میں پوری سیاسی جماعت کالعدم ہو جائےگی ۔ ایسا ہونے کی صورت میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ ارکان صوبائی اسمبلی حتیٰ کہ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے بھی نااہل ہو جائیں گے۔

     نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -