مرجھائے ہوئے نیازی اور کملائے ہوئے دستے
مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:121
بطور انگریزی مصنف
صدیق سالک نے انگریزی زبان میں 2 کتابیں لکھیں۔ پہلی کتاب کا نام "Witness to Surrender" ہے- جو 1977ءمیں شائع ہوئی بعدازاں اس کا اردو ترجمہ :”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ کے نام سے لکھا۔ سالک کو شروع سے ہی انگریزی ادب سے لگاﺅ تھا۔ اسی لیے انہوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور4 سال انگریزی کے استاد بھی رہے۔ انگریزی زبان سے ان کے لگاﺅ کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سالک کی 6 اردو کتابوں میں سے3 کے نام انگریزی میں ہیں یعنی ”پریشر ککر“ ،” ایمرجنسی“ اور ”سلیوٹ“ اپنی اولین کتاب ”ہمہ یاراں دوزخ“ کی کامیابی کے باوجود انہوںنے سقوط ڈھاکہ کی یادداشتیں لکھنے کے لیے انگریزی زبان کا انتخاب کیا۔
اس کتاب کا نام پہلے "Surrenderas I saw it" تھا سالک کے دوست خالد محمود عارف کی تجویز پر اس کا نام "Witness to Surrender" رکھا گیا۔سالک کو انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا۔ کتاب کا اسلوب موضوع کے مطابق سنجیدہ ہے۔ چونکہ اس کتاب میں مزاح کی گنجائش نہیں تھی اس لیے اس کی مثالیں نہیں ملتی۔ لیکن سالک انگریزی زبان میں بھی طنز کا استعمال مہارت سے کرتے ہیں مثلاً یحییٰ خان کی مشرقی پاکستان کی صورتحال سے عدم دلچسپی کے متعلق لکھتے ہیں:
"The President of Pakistan and chief Martial law Administator found time from his multi farions engagement"
Witness to Surrenderکا ترجمہ سالک نے ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ کے نام سے کیا۔ دونوں زبانوں میں لکھی ہوئی ایک ہی بات کے ذریعے ہم ان کی انگریزی اسلوب کو سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً انگریزی میں لکھتے ہیں:
"14 December was the last day of the East Pakistan Government. The debris of the Government House were scatered. The enemy had only neutralize General Niazi and his disorganized forces to complete the Caesarian birth of Bangla Desh."
اسی اقتباس کا اردو ترجمہ یوں کیا ہے:
”14دسمبر حکومت مشرقی پاکستان کا آخری دن تھا۔ اس روز گورنمنٹ ہاﺅس کا ملبہ کیا بکھرا خود حکومت کا شیرازہ بکھر گیا۔ بنگلہ دیش کی پیدائش ایسے بچے کی ولادت تھی جسے ماں کا پیٹ چاک کر کے نکالا گیا ہو بھارت یہ آپریشن کررہا تھا۔ اب اس میں صرف یہ مرحلہ تھا کہ کب مرجھائے ہوئے جنرل نیازی اور کملائے ہوئے پاکستانی دستوں سے ہتھیار ڈلوائے جائیں۔“
دونوں اقتباسات میں فرق زبانوں کے مزاج کا ہے۔ انگریزی میں ان کا انداز نسبتاً غیر جذباتی ہے۔”ماں کا پیٹ چاک کر کے نکالا گیا “ میں جو کرب ہے وہ "Caesarian birth"میں نہیں ہے۔ یعنی سالک نے انگریزی میں وہ اسلوب اختیار کیا ہے جو انگریزی کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہے۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )