کچھ بتا سکتے ہو وہ عشق کہاں رکھا ہے

میں نے ان دیکھی محبت پہ گماں رکھا ہے
جس طرح نیل نے پانی کو رواں رکھا ہے
وحشتِ عشق چھپانے سے بھی کیا ہو جاتا
ہم نے مجنوں کی طرح خود کو عیاں رکھا ہے
کیسے بتلاؤں کہ دل ہوتا تھا جس سینے میں
کچھ مسیحاؤں نے اب درد وہاں رکھا ہے
میری اک بات سنو مجھ سے جو کرتے تھے تم
کچھ بتا سکتے ہو وہ عشق کہاں رکھا ہے