جب قدرت اللہ شہاب کو ان کے والد نے سزا کے طور پر لائبریری میں بند کر دیا

جب قدرت اللہ شہاب کو ان کے والد نے سزا کے طور پر لائبریری میں بند کر دیا
جب قدرت اللہ شہاب کو ان کے والد نے سزا کے طور پر لائبریری میں بند کر دیا

  

معارف علی حسنین کاظمی

قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ ان کے والد نے ایک مرتبہ سزا کے طور پر ان کو لائبریری میں بند کر دیا قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں چار و نا چار بالآخر وقت گزاری کے لیے میں نے کتابیں پڑھنا شروع کر دیا.... اور پھر تا دم مرگ ان کو کتب بینی کی عادت رہی...  مولانا وحید الدین خان کہتے ہیں ہر کمزوری کے اندر طاقت بھی چھپی ہوتی ہے .قدرت اللہ شہاب   "شہاب نامہ" میں لکھتے ہیں:

‎"ایک بار میں کسی دور دراز علاقے میں گیا ہوا تھا۔ وہاں پر ایک چھوٹے سےگاؤں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی۔ میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں گیا تو ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں بے حد طویل خطبہ دے رہے تھے۔ ان کا خطبہ گزرے ہوئے زمانوں کی عجیب وغریب داستانوں سے اٹاٹ بھرا ہوا تھا۔ کسی کہانی پر ہنسنے کو جی چاہتا تھا، کسی پر حیرت ہوتی تھی۔ لیکن ایک داستان کچھ ایسے انداز سے سنائی کہ تھوڑی سی رقت طاری کر کے سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔ یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت واحترام کا تھا۔ باپ حضرت محمد ﷺ تھے اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہؓ تھیں۔ مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ حضور رسولِ کریم ﷺ جب اپنے صحابہ کرامؓ کی کوئی درخواست یا فرمائش منظور نہ فرماتے تھے تو بڑے بڑے برگزیدہ صحابہ کرامؓ حضرت بی بی فاطمہؓ کی خدمت میں حاظر ہو کر ان کی منت کرتے تھے کہ وہ ان کی درخواست حضور  اکرم ﷺ کی خدمت میں لے جائیں اور اسے منظور کروا لائیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کے دِل میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ اکثر اوقات جب  حضرت بی بی فاطمہؓ ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتی  تو حضور  اکرم ﷺ خوش دلی سے منظور فرما لیتے۔ اس کہانی کو قبول کرنے کے لیے میرا دل بے اختیار آمادہ ہو گیا۔

‎جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا۔ کچھ نوافل میں نے حضرت بی بی فاطمہؓ کی روح مبارک کو ایصالِ ثواب کی نیت سے پڑھے۔پھر میں نے پوری یکسوئی سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی، 

‎”یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتاہے کہ تیرے آخری رسولﷺ کے دل میں اپنی بیٹی خاتون جنتؓ کے لیے اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کاجذبہ موجزن ہو گا۔ اس لیے میں اللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت بی بی فاطمہؓ کی روح کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی ﷺ کے حضور میں پیش کرکے منظور کروا لیں۔

‎درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں۔ سیدھے سادھے مروّجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اگر سلسلہ اویسیہ واقعی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلہ سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطا فرمائی جائے۔ "

‎(اویسی سلسلہ اس کو کہتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی ایسی ہستی سے براہ راست فیض ملے جو اس زمانے کی نہ ہو، کسی پہلے کے زمانے کی ہو)۔

‎اس بات کا میں نے اپنے گھرمیں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ چھ سات ہفتے گزر گئے اور میں اس واقعہ کو بھول بھال گیا۔ پھر اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابھی کا ایک عجیب خط موصول ہوا۔ جو  مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہایت اعلیٰ درجے کی پابندِ صوم و صلوٰة خاتون تھیں۔ انہوں نے لکھا تھا:

‎" رات میں نے خوش قسمتی سے حضرت بی بی  فاطمہؓ بنتِ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع اور شفقت سے باتیں کیں اور فرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتا دو کہ میں نے اس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامی ﷺ کی خدمت میں پیش کر دی تھی۔ انہوں نے ازراہ نوازش منظور فرما لیا ہے"۔

‎یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش وحواس پر خوشی اور حیرت کی دیوانگی سی طاری ہوگئی۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔ یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میر ا ذکر ہوا۔ میرے روئیں روئیں پر ایک تیز وتند نشے کی طرح چھاجاتا تھا۔ کیسا عظیم باپ ﷺ ! اور کیسی عظیم بیٹی! دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہو کر دیوانوں کی طرح اس مصرعہ کی مجسم صورت بنا بیٹھا رہا۔

‎ مجھ سے بہتر ذکر میرا ہے کہ اس محفل میں ہے !

‎اس کے بعد کچھ عرصہ تک مجھے خواب میں مختلف بزرگ صورت ہستیاں نظر آتی رہیں جن کو نہ تو میں جانتا تھا نہ ان کی باتیں سمجھ میں آتی تھیں اور نہ ان کے ساتھ میرا دل بھیگتا تھا۔ پھر ایک خواب میں مجھے ایک نہایت دلنواز اور صاحب جمال بزرگ نظر آئے جو احرام پہنے ایک عجیب سرور اورمستی کے عالم میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ میرا دل بے اختیار ان کے قدموں میں بچھ گیا۔ وہ بھی مسکراتے ہوئے میری جانب آئے اور مطاف سے باہر حطیم کی جانب ایک جگہ مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور بولے:

‎ ”میرا نام قطب الدّین بختیار کاکیؒ ہے۔ تم اس راہ کے آدمی تو نہیں ہو لیکن جس دربار  سے تمہیں منظوری حاصل ہوئی ہے اس کے سامنے ہم سب کا سر تسلیم خم ہے۔“

‎پھر بزرگ نے شہاب صاحب  کو کچھ امتحان اور آزمائشیں دیں اور کچھ عرصہ بعد قدرت اللہ شہاب  کو روحانی تربیت پر مبنی خطوط ملنا شروع ہو گئے "نائنٹی" کے  نام سے، اور یوں شہاب  کی اویسی سلسلہ میں شمولیت ہوئی۔میں قدرت اللہ شہاب کے ساتھ مسجد الحرام کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک قدرت نے پوچھا: "یہ آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟"

‎"یہ کاپی ہے۔"

‎"یہ کیسی کاپی ہے؟"

‎"اِس میں دعائیں لکھی ہیں۔ میرے کئی ایک دوستوں نے کہا تھا کہ خانہ کعبہ میں ہمارے لئے دعا مانگنا، میں نے وہ سب دعائیں اِس کاپی میں لکھ لی تھیں۔"

‎"دھیان کرنا!" وہ بولے "یہاں جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے۔"

‎"کیا مطلب؟" میری ہنسی نکل گئی۔ "کیا دعا قبول ہو جانے کا خطرہ ہے؟"

‎"ہاں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دعا قبول ہو جائے۔"

‎میں نے حیرت سے قدرت کی طرف دیکھا۔

‎بولے "اسلام آباد میں ایک ڈائریکٹر ہیں۔ عرصہ دراز ہوا اُنہیں بخار ہو جاتا تھا۔ ڈاکٹر، حکیم، وید، ہومیو، سب کا علاج کر دیکھا، کچھ افاقہ نہ ہوا۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئے۔ آخر چارپائی پر ڈال کے کسی درگاہ پر لے گئے۔ وہاں ایک مست سے کہا بابا دعا کر کہ اِنہیں بخار نہ چڑھے۔۔۔ انہیں آج تک پھر کبھی بخار نہیں چڑھا۔

‎اب چند سال سے ان کی گردن کے پٹّھے اکڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی گردن اِدھر اُدھر ہلا نہیں سکتے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مرض صرف اسی صورت میں دور ہو سکتا ھے کہ انہیں بخار چڑھے۔ انہیں دھڑا دھڑ بخار چڑھنے کی دوایاں کھلائی جا رہی ہیں، مگر انہیں بخار نہیں چڑھتا۔"

‎دعاؤں کی کاپی میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی۔ میں نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا۔ "میرے اللہ! کیا کسی نے تیرا بھید پایا ھے؟"

‎ممتازمفتی کی کتاب " لبّیک " سے اقتباس

مزید :

ادب وثقافت -