زیادہ تر حکومتوں نے اقتصادی ترقی کے دعوے کیے اور اس کے بدلے عوام کے سیاسی حقوق سلب کیے

 زیادہ تر حکومتوں نے اقتصادی ترقی کے دعوے کیے اور اس کے بدلے عوام کے سیاسی ...
 زیادہ تر حکومتوں نے اقتصادی ترقی کے دعوے کیے اور اس کے بدلے عوام کے سیاسی حقوق سلب کیے

  

 مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی

قسط:122

صدیق سالک کی انگریزی کی دوسری کتاب "State and Politics"ہے۔ سالک کو ان کی زندگی میں اس کی اشاعت کی اجازت نہیں ملی تھی۔ یہ ان کی وفات کے بعد 1997ءمیں شائع ہوئی۔یہ کتاب سالک نے1984ءمیں لکھی تھی۔ اس کتاب میں 1947ءسے 1984ءتک کی حکومتوں کے کردار پر بحث کی گئی ہے۔ سالک کا کہنا ہے کہ زیادہ تر حکومتوں نے اقتصادی ترقی کے دعوے کیے اور اس کے بدلے عوام کے سیاسی حقوق سلب کیے۔ انہوں نے کمال جرأت سے صدر ضیاءالحق کی آزادیٔ اظہار پر پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنا یا ہے۔ اس انگریزی کتاب میں انہوں نے طنز کا استعمال خوبصورتی سے کیا ہے مثلاً صدر ضیا ءالحق کے طول اقتدار پر طنز کرتے ہوئے Political Stabilityیعنی سیاسی استحکام کے متعلق لکھتے ہیں:

"By Stability, Pethaps, is meant prolongation of one regime like the 'stable' 10-years rule of Field Marshal Ayub Khan or 'Stabler' 26-years reign of the shah of Iran" 

اس اقتباس میں الفاظ کا طنز اً واوین میں استعمال اردو انداز کی غمازی کرتا ہے۔"State and Politics"کے مقابلے میں "Witness to surrender" میں ان کا انداز تحریر زیادہ دلکش ہے۔ اس کی وجہ موضوع ہے اول الذکر کتاب تاریخی تجزیہ ہے جبکہ مؤخرالذکر میں واقعات کے ساتھ ذات بھی شامل ہے۔

اس مختصر جائزے سے سالک کی انگریزی انداز تحریر سے کچھ آگاہی حاصل ہوتی ہے۔سالک ان چند نثر نگاروں میں شامل ہےں جو اردو کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی خوبصورت نثر لکھنے پر قادر ہیں۔

اسلوب اور ادبی مقام

صدیق سالک کا شمار اردو کے وسیع الجہات نثر نگاروں میں ہوتا ہے انہوں نے مزاح ‘ ناول آپ بیتی اور تاریخ کے موضوعات پر قلم اٹھایا۔ ان کی غالب شہرت مزاح نگار کے طور پر سامنے آئی ہے۔ لیکن سالک کی تحریروں میں غالب حصہ مزاح کا نہیں۔ ان کی اردو کی6 کتابوں میں سے صرف ایک کتاب ”تادم تحریر“ مکمل مزاح کی کتاب ہے سالک کے ادبی ذخیرے میں ‘ میں سب سے زیادہ حصہ سوانحی ادب کا ہے‘ ان کی کتابیں ”سلیوٹ“،” ہمہ یاراں دوزخ“ اور ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ اسی زمرے میں آتی ہیں۔ دراصل آپ بیتی سے سالک کو طبعی مناسبت ہے۔اسی لیے وہ افسانوی نثر کے مقابلے میں غیر افسانوی نثر میں زیادہ کا میاب ہیں۔ان کی تحریروں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان واقعات و احساسات کو زیادہ مؤثر بیان کر سکتے ہیں جو ان کی ذات سے عبارت ہوتے ہیں جو واقعہ جتنا زیادہ ان کی ذات کے قریب ہوتا ہے اس کا اظہار اتنا بہتر کرتے ہیں۔ اس لیے سالک کی تحریروں کا غالب اور سب سے اہم حصہ سوانحی ادب کا ہے۔( جاری ہے ) 

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -