کیا تھا اس عورت میں، جو اس پر اس طرح اثر انداز ہو رہا تھا ؟ وہ تو پتھر کا بت بنی بیٹھی تھی

 کیا تھا اس عورت میں، جو اس پر اس طرح اثر انداز ہو رہا تھا ؟ وہ تو پتھر کا بت ...
 کیا تھا اس عورت میں، جو اس پر اس طرح اثر انداز ہو رہا تھا ؟ وہ تو پتھر کا بت بنی بیٹھی تھی

  

مصنف : اپٹون سنکلئیر

ترجمہ :عمران الحق چوہان 

 قسط:148

یورگس باہر نکل آیا اور اس موضوع پر سوچتے ہوئے پیدل چلنے لگا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ پہلے وہ کام ڈھونڈے گا چنانچہ اس نے باقی کا دن یہاں وہاں فیکٹریوں اور گوداموں میں نوکری کی تلاش میں گزارا لیکن ناکام رہا۔ رات ہونے لگی تو اس نے گھر جانے کا فیصلہ کیا لیکن راستے میں ایک ریستوران آیا اور یورگس اندر چلا گیا۔ ماریا کے پیسوں سے اس نے کھانا کھایا۔ پیٹ بھر کر باہر نکلا تو اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔رات خوش گوار تھی اور وہ کسی بھی جگہ کھلے آسمان کے نیچے سو سکتا تھا اور صبح اٹھ کر دوبارہ نوکری کی تلاش میں نکل سکتا تھا، شاید کوئی کام مل جائے۔ چلتے چلتے وہ چونکا، یہ وہی سڑک تھی جہاں اس نے سیاسی جلسہ سنا تھا۔ اب وہاں بینڈ تھا نہ آتش بازی لیکن ایوان کے باہر ایک اشتہار لگا ہوا تھا جس پر جلسے کا اعلان تحریر تھا۔ بہت سے لوگ اندر جا رہے تھے۔ یورگس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک موقع اور آزمائے گا۔ اندر بیٹھ کر آرام کرے گا اور سوچے گا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔کوئی آدمی ٹکٹ نہیں دے رہا تھا، گویا یہ بھی مفت پروگرام تھا۔

وہ اندر داخل ہوا۔ اس بار ایوان میں کوئی سجاوٹ نہیں تھی لیکن پلیٹ فارم پر اچھی خاصی بھیڑ تھی اور تقریباً ہر نشست بھر چکی تھی۔ اسے سب سے پیچھے ایک جگہ مل گئی۔ بیٹھتے ہی وہ اپنے گردوپیش سے غافل ہو گیا۔ کہیں الزبیٹا یہ تو نہیں سوچے گی کہ میں ان کی کمائی کھانے کے لیے آگیا ہوں، یا وہ یہ بات مان لے گی کہ وہ کام کرنا چاہتا ہے تا کہ آمدنی میں اپنا حصہ ڈال سکے؟ وہ اس سے اچھا سلوک کرے گی یا اسے برا بھلا کہے گی ؟ کاش اسے گھر جانے سے پہلے کوئی کام مل جائے۔۔۔ اگر پچھلا باس اسے ایک موقع اور دینے کو تیار ہوجائے!

فلک شگاف نعروں کے شور پر اس نے چونک کر اوپر دیکھا۔ ایوان دروازے تک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ عورتیں اور مرد اپنی جگہوں پر کھڑے ہوکر رومال ہلا ہلا کر نعرے لگا رہے تھے۔اس کا مطلب تھا کہ مقرر آچکا ہے، یورگس نے سوچا، یہ لوگ اپنے آپ کو کیوں بے وقوف بناتے ہیں! اس سے انھیں کیا ملے گا ؟ انھیں انتخابات سے کیا لینا دینا؟ اس نے سیاست کے پسِ پردہ بھی دیکھا ہوا تھا۔

وہ پھر خیالوں میں کھو گیا۔وہ ایک دو گھنٹے یوں ہی بیٹھا رہا۔ اس دوران تقریر جاری رہیںاور لوگ جوش وخروش سے نعرے لگاتے اور تالیاں بجاتے رہے۔ آہستہ آہستہ یہ آوازیں دھندلی پڑنے لگیں۔ اس کا سر جھک گیا اور وہ اونگھنے لگا۔ اس نے خود کو سنبھالنے کی پوری کوشش کی لیکن ایوان میں گرمائش تھی، وہ دور سے چل کر آیا تھا اور اس نے پیٹ بھر کر کھانا بھی کھایا ہوا تھا۔آخر وہ بے سدھ ہو کر سو گیا۔

کسی نے پھر اسے ٹہوکا دیا اور وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔یقیناً وہ خراٹے لیتا رہا ہوگا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسٹیج کی طرف دیکھنا شروع کیا جیسے اسے دنیا میں اس کے سوا کسی چیز میں دلچسپی ہی نہ ہو۔اسے پچھلی مرتبہ لوگوں کی ناراضی اور پولیس والے کی آمد یاد تھی۔۔۔ وہ خوف سے بیٹھا سوچتا رہا۔

پھر اچانک اس کے کان میں ایک آواز آئی، ایک نرم نسوانی آواز ” کامریڈ ! اگر تم سننے کی کوشش کرو تو شاید تمھیں اس میں دلچسپی محسوس ہو۔“ 

یورگس اس آواز سے یوں ڈرا کہ پولیس والے کی آواز سے بھی کیا ڈرا ہوگا۔اس نے آنکھیں سامنے مرکوز رکھیں اور ساکت بیٹھا رہا لیکن اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔کامریڈ ! یہ کون تھی جس نے اسے کامریڈ کہا تھا ؟ 

اس نے تب تک انتظار کیا جب تک اسے یقین نہ ہو گیا کہ وہ عورت اسے نہیں دیکھ رہی، پھر اس نے کانی آنکھ سے ساتھ بیٹھی عورت کی طرف دیکھا۔ وہ نوجوان اور خوب صورت تھی، کپڑے بھی اچھے تھے۔ وہ ایسی تھی جسے عام طور پر ”لیڈی“ کہا جاتا ہے۔ اس نے اسے ”کامریڈ“ کہا تھا ! 

وہ احتیاط کے ساتھ ہلکا سامڑا تاکہ اسے بہتر طور پر دیکھ سکے۔ وہ اسے دیکھ کر مبہوت ہوگیا۔ بظاہر وہ لڑکی اسے قطعی بھول چکی تھی اور اب اسٹیج کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں ایک آدمی تقریر کر رہا تھا۔۔۔ یورگس کو اس کی آواز مبہم سی سنائی دے رہی تھی لیکن اس کا دھیان عورت کے چہرے کی طرف ہی تھا۔اسے دیکھتے ہوئے یورگس کو ڈر لگ رہا تھا۔ اس کے بدن میں جیسے تھرتھری سی دوڑ رہی تھی۔کیا تھا اس عورت میں، جو اس پر اس طرح اثر انداز ہو رہا تھا ؟ وہ تو پتھر کا بت بنی بیٹھی تھی۔اس نے ہاتھ باندھ کر گود میں رکھے ہوئے تھے۔ اس کے چہرے پر جوش تھا، جیسے کوئی سخت جد جہد کر رہا ہو یا کسی تحریک کا حصہ ہو۔ اس کے نازک نتھنے پھڑک رہے تھے اور وہ بار بار اپنے ہونٹ گیلے کر رہی تھی۔بھاری سانس کے ساتھ اس کا سینہ ابھرتا ڈوبتا دکھائی دیتا تھا۔ اس کا جوش بڑھتا اور پھر کم ہوجاتا جیسے سمندر کی لہروں پر کوئی کشتی اچھل رہی ہو۔یہ کیا تھا ؟ کیا ہورہا تھا ؟ ضرور یہ اس بات کا ثر تھا جو اسٹیج پر کھڑا آدمی کَہہ رہا تھا۔وہ کس قسم کا آدمی تھا ؟ وہ کس قسم کی بات کر رہا تھا ؟ یورگس کو ایک دم احساس ہوا کہ اسے مقرر کی بات سننی چاہیے۔( جاری ہے ) 

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -