سعودی عرب: پاکستان کا مددگار یا....؟
25
جولائی2013ء(بروز جمعرات) پاکستان کے ایک قد آور انگریزی اخبار میں صفحہ آخر پر ایک یک کالمی خبر شائع ہوئی.... تحریر کے حجم سے قطع نظر بعض خبریں اتنی اہم ہوتی ہیں کہ مختصر ہونے کے باوصف، دامنِ توجہ کھینچ لیتی ہیں۔ درج ذیل خبر بھی اسی زمرے میں آتی ہے:
S.Arabia will send imams to Pakistan.
خبر کا متن یہ تھا:”سعودی عرب ہر سال دو امام پاکستان بھیجا کرے گا جن میں ایک مسجدِ نبوی کے امام صاحب ہوں گے اور دوسرے مسجد الحرام (خانہ کعبہ) کے....“
یہ خوشخبری ان دونوں مقدس مساجد کے مہتمم اعلیٰ (صدر) شیخ عبدالرحمن السدیس نے پاکستان کے وزیرِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی، جناب سردار محمد یوسف سے، ریاض میں، بات چیت کے دوران سنائی۔ سردار صاحب، ماہِ مقدسِ رمضان میں اپنے وفد کے ساتھ سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔ شیخ عبدالرحمن نے کہا کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہِ عبداللہ، پاکستان اور پاکستانیوں کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور امامین کا یہ بھیجنا دونوں ممالک میں تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنے گا۔ شیخ السدیس نے پاکستانی وفد سے بات چیت کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے عوام ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ پاکستانی وزیر نے الشیخ السدیس کو یہ بھی بتایا کہ پاکستان، شاہ عبداللہ کے مشن کے مطابق بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں کوشاں ہے اور کوشاں رہے گا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ السدیس لال مسجد کے سانحے کے دوران بھی پاکستان تشریف لائے تھے اور مولانا عبدالرشید غازی شہید اور ان کے بڑے بھائی مولانا عبدالعزیز کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی کہ پاکستانی اربابِ اختیار (فوج) سے ٹکر نہ لیں، لیکن دونوں بھائیوں نے امامِ مسجد الحرام و مسجد نبوی کی کوئی بات نہ سنی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کا نقارہ سارے پاکستان، بلکہ پوری دنیا میں پیٹا گیا۔
قارئین کرام! جب مَیں نے یہ خبر پڑھی تو دل میں سوچا اگر دس برس پہلے السدیس کی بات لال مسجد کے مولاناو¿ں نے نہیں سنی تھی تو اب وہ پاکستان آکر کن سے خطاب فرمائیں گے اور ان کے پندِ سود مند (بین المذاہب ہم آہنگی) کو کون سنے گا؟.... مرزا غالب یاد آرہے ہیں:
حضرت واعظ جو آئیں دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟
اور پھر ایک اورسوچ نے بھی دماغ کے کسی کونے سے سر نکالا اور پوچھا کہ شاہ عبداللہ نے پاکستان کو جو سالانہ دو عدد ائمہ کرام کے درودِ مسعود کی نوید دی ہے تو پاکستان کو اس سعودی فیاضی کی کیا ضرورت آن پڑی تھی؟.... کیا پاکستان ایک طویل عرصے سے ائمہ کرام کی تعداد کے باب میں خود کفیل نہیں؟.... کیا ہر گاو¿ں اور ہر قصبے میں تین تین، چار چار مساجد موجود نہیں؟.... کیا ان میں امام صاحبان موجود نہیں؟.... کیا کوئی مسجد آج کسی کو خالی اور بے آباد نظر آتی ہے، مساجدِ حرمین الشریفین کے یہ ائمہ حضرات ہر سال پاکستان میں آکر کیا فریضہ سرانجام دیا کریں گے؟.... پاکستان تو الِا ماشاءاللہ ایک طویل عرصے سے نہ صرف اماموں کے سلسلے میں خود کفیل ہے، بلکہ دنیا بھر کے مشرقی اور مغربی ممالک کو اپنے واعظینِ کرام اور ائمہ عظام کو برآمد کرنے کے شعبے میں پیش پیش ہے اور اس پر مستزاد یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی اسلامی عبادت گاہوں کی ضروریات اور اپنی اندرونی احتیاجات پوری کرنے کے بعد بھی فاضل ائمہ کرام کی ایک بڑی تعداد سنبھالے بیٹھا ہے جو ہمہ وقت دساور جانے کے لئے تیار ہوتی ہے۔
ان حالات میں بریلی کو بانس بھیجنا کس کام آئے گا؟.... میرے بعض دوستوں نے جب یہ خبر پڑھی تو کہا کہ ان اماموں کی آمد پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی بجائے بین المذاہب کشیدگی پیدا کرے گی۔ سعودی عرب والوں کے اسلام اور پاکستان کے سواد اعظم کے اسلام کی برانڈوں میں فرق ہے۔ یہ فرق دس پندرہ برس پہلے تو بہت واضح تھا ،لیکن ان ڈیڑھ دو عشروں میں ماشاءاللہ سعودیوں نے اپنی برانڈ کو پاکستان پر مسلط کرنے کی طرف اتنی شدت اور شد و مدسے پیش رفت کی ہے کہ ساری دنیا حیران رہ گئی ہے۔
پاکستان کی آبادی، کثیر المذاہب اور کثیر الجہات ہے۔ جب سعودیوں نے پاکستان میں اپنے مذہبی برانڈ کی ترویج و اشاعت پر ایک گرانقدر اور کثیر سرمایہ کاری کرنے کا آغاز کیا تو عرب و عجم کی پرانی مذہبی رقابت نے بھی سر اٹھایا۔ آج کل ہم کوئٹہ، لنڈی کوتل، گلگت، چلاس، کوہستان اور ملک کے دوسرے صوبوں میں مختلف مذاہب کی طرف سے شدت پسندی کے جو مظاہرے دیکھ رہے ہیں، یہ دراصل ایران اور عرب کی وہ پراکسی وار ہے جو ریاض اور تہران میں نہیں لڑی جا رہی ہے، بلکہ پاکستانی معاشرے کی ایک بڑی اکثریت کے لئے عذاب کا باعث بنی ہوئی ہے۔ (ابھی کل (26جولائی) ہی پارا چنار میں 40سے اوپر مسلمانوں کی جان لی گئی ہے)خبروں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان دو سعودی ائمہ کا پاکستان میں مینڈیٹ کیا ہوگا؟ انہیں کون سا شعبہ تفویض کیا جائے گا، کیا ان کو اردو زبان کی تحریر و تقریر پر قدرت حاصل ہے، کیا وہ فیصل مسجد کے ہمسائے میں واقع اسلامی یونیورسٹی میں کسی تحقیقی کام پر مامور کئے جائیں گے یا عامتہ الناس کے ساتھ ان کے انٹر ایکشن کا کوئی نیا پروگرام وضع کیا جائے گا؟
دورِ حاضر مواصلاتی معجزات کا دور ہے.... دنیا کا ہر بڑا اخبار انٹرنیٹ پر ہے۔آپ جب چاہیں ایک بٹن دبا کر جس اخبار کو پڑھنا چاہیں، اسے پڑھ سکتے ہیں۔میرے سامنے 11جولائی 2013ءکا ایک انگریزی اخبار کھلا ہوا ہے،جس کا نام” گلوبل ایڈیشن نیویارک ٹائمز“ ہے۔اس کے صفحہ نمبر11پر بھی ایک یک کالمی خبر چھپی ہوئی ہے،لیکن یہ ایک طویل خبر ہے جو پورے دو صفحات پر یک کالمی خبر کی صورت میں ہے۔
....اس کا عنوان ہے:
Monarchies in Gulf to cut giant cheque for Egypt
یعنی ”خلیج کی بادشاہتیںمصر کے لئے ایک بہت بڑا چیک کاٹ کر دے رہی ہیں“.... اس بڑے عنوان کے تحت ایک ذیلی عنوان بھی ہے جو اس طرح ہے: ”سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات طاقت کا توازن تبدیل کرنے کے لئے 8ارب ڈالر مصر کو دے رہے ہیں!“
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (UAE) 8ارب ڈالر کی یہ امداد مصرکی اس فوجی حکومت کو دے رہی ہیں جس نے حال ہی میں اخوان المسلمین کے ایک رکن جناب مرسی محمد کی حکومت کا تختہ الٹایا ہے۔سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے یہ خطیر امداد دے کر ایک اور انوکھی بات کی ہے کہ مصری افواج کے کمانڈر انچیف جنرل عبدالفتح السی سی کو براہ راست ٹیلی فون کرکے مبارک باد اور شاباش دی ہے اور فرمایا ہے:
ایں کا از تو آمڈ و مرداں چنیں کنند
آپ پوچھیں گے کہ سعودی عرب کو مصر سے کیا دلچسپی ہے کہ وہ 8ارب ڈالر کا چیک بمعہ ذاتی شاباش کے مصر کے فوجی آمر کے حوالے کررہا ہے....تو بھائی جان! اس کا جواب یہ ہے کہ سعودیوں اور اماراتیوں کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر مرسی کی جمہوری اور عوامی حکومت مصر میں کامیاب ہوتی ہے اور وہاں اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے تو آنے والے ایام میں سعودی عرب اور امارات، مصر سے کتنی دور ہوں گے؟ان ملکوں میں بھی کچھ ہو سکتا ہے ۔سعودیہ اور امارات میں ایک مدت سے شاہی اور شخصی حکومتیں قائم ہیں۔ان کو اپنا تخت و تاج ڈولتامحسوس ہوا تو دامے ،درمے اور سخنے خزانوں کے منہ کھول دیئے اور آمرانہ حکومت کی فوری امداد کو اٹھ دوڑے.... یہ وہی عرب ممالک ہیں جو پاکستان کی موجودہ اقتصادی زبوں حالی کے مرض کا علاج یہ کررہے ہیں کہ ہمیں ہر برس دو عدد امام بھیجنے والے ہیں!.... ان ائمہ کرام سے توقع ہے کہ وہ پاکستان کی ساری معیشی احتیاجات کا علاج ہوں گے....
آپ ذرا غور فرمائیں کہ مریضِ پاکستان قریب المرگ ہے، دوا دارو کے لئے اس کی جیب میں دھیلا نہیں، ہمسائے اس کے ازلی دشمن ہیں، وہاں سے کسی معالج کے آنے کی امید نہیں،مریض کا پیٹ کمر سے لگا جا رہا ہے، وہ بھوک اور پیاس سے جان بلب ہے....اور ایسے میں عرب ممالک سے دو مولانا آتے ہیں، مریض کی چارپائی کے سرہانے آ کر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور زور زور سے زرد اور پژمردہ چہرے پر دوچار پھونکیں مارتے ہیں....میرا خیال ہے عرب ممالک نے پاکستانی مریض کا علاج کرنے کرنے کے لئے یہ دونوں معالج بطور ”اکنامک سپیشلسٹ“ ہمارے ہاں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے!
پاکستان کا فیڈرل بجٹ برائے سال 2013-14ءاٹھا کر دیکھئے۔اس میں پاکستان کی دفاعی فورسز کا کل بجٹ 627ارب روپے دکھایا گیا ہے۔8ارب ڈالر کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کریں تو یہ 800ارب روپے بنتے ہیں، یعنی اگر یہ رقم پاکستان کو مل جاتی تو پاکستان کا سال بھر کا دفاعی بجٹ نہ صرف پورا ہو جاتا، بلکہ 173ارب روپے فاضل بھی بچ جاتے، جن سے دیگر شعبوں میں مدد مل سکتی تھی۔ہم پاکستانی اس قسم کی رقم کو ”بھیک“ تو کہتے ہیں۔لیکن یہ بات کس کے علم میں نہیں کہ ہم تو عادی گداگر ہیں، ہمیشہ کشکول بدست رہتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ ہمارے منہ سے غیرت مندانہ قسم کی بڑھکیں بھی سنائی دیتی رہتی ہیں۔
خلیج کے عرب ممالک نے اپنی آمریتوں کو بچانے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرکے کا حفظِ ماتقدم کا یہ پلان بنایا ہے اور امریکہ ان کی پشت پر ہے۔وہ خود بھی ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ مصر کو دے رہا ہے اور کئی عشروں سے دے رہا ہے۔برسوں پہلے کیمپ ڈیوڈ میں جو سمجھوتہ ہوا تھا، اس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اگر مصر، اسرائیل کے ساتھ جنگ نہیں کرے گا تو امریکہ ہر سال اسے 150ارب روپے بطور ”رشوت“ دیتا رہے گا....وہ اب بھی مصر کی آمرانہ حکومت کو یہ رقم ریلیز کرے گا.... ویسے تو 8ارب ڈالر، سعودی عرب کے لئے ایک حقیر سی رقم ہے لیکن میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ ہمارے یہ مسلمان برادر ممالک پاکستان کو اگر کوئی مالی مدد نہیں دے سکتے تو کم از کم ایسے اماموں کو تو یہاں نہ بھیجیں جو پاکستان کی مذہبی شدت پسند سوسائٹی کو مزید شدت پسند بنا دیں گے اور ہمارا کمزور مذہبی تانابانا مزید کمزور ہو جائے گا۔
ہزایکسی لینسی شاہ عبداللہ صاحب! پاکستان کو اماموں کی نہیں داموں کی ضرورت ہے!!
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی