تحریک ِ انصاف کا لانگ مارچ:چند مضمرات

تحریک ِ انصاف کا لانگ مارچ:چند مضمرات
تحریک ِ انصاف کا لانگ مارچ:چند مضمرات
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج کل پرنٹ میڈیا پر ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر قلم اٹھانا گویا گزشتہ شب کے الیکٹرانک میڈیا کے نقد ونظر کی باز آفرینی کا دوسرا نام ہے۔ اس لئے مَیں حتیٰ الوسع اس سے گریز کرتا ہوں۔ جس طرح آزمائے ہوئے کو آزمانا جُہل ہے اِسی طرح چبائے ہوئے کو چبانا بھی کودک شعاری میں شمار ہونا چاہئے۔ اچھے بھلے بالغ الجسم اور بالغ الذہن لوگ بھی جب Spoon Feeding کے عادی ہو جائیں تو قوم کو سنجیدہ اور ثقہ موضوعات کی تفہیم کی راہ کون دکھائے گا؟
تحریک انصاف کے رہنما جناب عمران خان صاحب ہر روز کسی نہ کسی الیکٹرانک چینل پر آ کر پورے ایک پون گھنٹے تک وہی باتیں دہراتے نظر آتے ہیں جو وہ ایک طویل عرصے سے دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں حکومت کا کوئی ایسا رہنما جو اکیلا خان صاحب کے استدلال کا ردِّ استدلال پیش کرے سامنے نہیں آتا۔ البتہ دوسرے درجے کے مختلف رہنما، خان صاحب کے دلائل کا جو بطلان (Rebuttal) کرتے ہیں، وہ نہایت پھسپھسا اور کمزور ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو چاہئے کہ وہ ایک ایسا جہاندیدہ اور ”جھگڑالو“ سیاست دان میدان میں لائے جس کی باتوں میں عمران خان کے اعتراضات اور ان کے موقف کا مسکت اور دو ٹوک جواب موجود ہو۔
سیاست اور شطرنج کی چالوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ لیکن جب فریق ِ مخالف صرف پیادے ہی آگے پیچھے کرتا رہے اور گھوڑوں کی سیدھی ٹیڑھی چالوں کو استعمال نہ کرے تو قلعے بندیاں کب تک قائم رہ سکتی ہیں، فیلے کب تک ڈھال بن سکتے ہیں اور وزیر کب تک اپنے شاہ کی مات کو بچا سکتا ہے؟ عمران خان اپنے سارے مہرے بڑی زیرکی سے چلا رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) حرکیت (Mobility) سے عاری نظر آتی ہے۔ صرف خاموش ہو کر بیٹھ گئی ہے۔
سابق چیف جسٹس نے20ارب کا ہتک عزت کا جو دعویٰ کیا ہے، وہ بھی ان کی کم اندیشی کی بیّن دلیل ہے۔ پاکستانی قوم سیاست دانوں اور فوجیوں سے تو پہلے ہی بیزار تھی۔ میڈیا کو، ”جنگ اور جیو“ کی ” کرتوتوں“ نے عہدِ طفولیت ہی میں پولیو کا شکار کر دیا۔ لے دے کے عدلیہ بچی ہوئی تھی۔ جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری کے ہتک عزت کے اس مقدمے نے اس کو بھی داﺅ پر لگانے کی ٹھان لی ہے۔ جیسا کہ عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ سابق چیف جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری کی ساری ”حرکتوں“ کی قلعی کھول دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاست کا یہ چوتھا ستون بھی داغ دار ہونے سے بچ نہیں سکے گا۔.... انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور میڈیا کے بعد وہ کون سا ادارہ باقی رہ جائے گا جس پر لوگ اعتماد کریں گے؟.... نژادِ نو کے لئے نا امیدیوں اور مایوسیوں کی یہ گھنگھور گھٹائیں اگر14گست کو مزید کھل کر برسیں تو سیلابِ بلا کو شائد روکا نہ جا سکے۔

 حکومت نے آئین کے آرٹیکل245کے تحت فوج کو ریکوزیشن کرنے کا شوشہ تو چھوڑ دیا ہے لیکن کیا فوج سے بھی پوچھا ہے کہ وہ ریکوزیشن ہو کے کیا کرے گی؟.... کن کن حساس (Vulnerable) مقامات کی حفاظت کرے گی۔ بظاہر کہا گیا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کے بَلو بیک (Blow Back) کے خطرے کے پیش نظر فوج طلب کی گئی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کوئی پوچھے کہ کیا طالبان اپنا جوابی بَلو بیک صرف اسلام آباد ہی پر کریں گے؟.... کیا پاکستان میں ”اور“ حساس مقامات نہیں ہیں؟.... کیا ایوانِ صدر، ایوان وزیراعظم اور سپریم کورٹ ہی ایسے حساس ادارے رہ گئے ہیں، جن پر طالبان کے حملے کا خطرہ ہے اور اس خطرے کو Ward off کرنے کے لئے فوج کو آواز دی جا رہی ہے؟.... کیا فوج کو1977ءیاد نہیں؟.... میرا نہیں خیال کہ فوج آرٹیکل245 کے ”مطلوبہ“ مقاصد کی تکمیل کا الزام اپنے سر لے گی۔
جہاں تک طالبان کی طرف سے بَلو بیک کا مسئلہ ہے تو اس کے سدباب کے اور طریقے بھی ہیں۔ یہ طریقہ کوئی بہتر حل نہیں کہ اسلام آباد کو فوج کے حوالے کر دیا جائے اور اعلیٰ عدالتوں کی بجائے فوجی عدالتوں کو انصاف کا پیامبر بنا لیا جائے۔ کیا اس کا خمیازہ ہم کئی بار نہیں بھگت چکے؟.... کیا اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے سے آئس برگ کی چوٹی کا کونہ(Tip) لڑکھڑاتا ہوا اپنے ساتھ سارے آئس برگ کو متحرک نہیں کر دے گا؟
حکومت کے رہنماﺅں کے علم میں یہ بات بھی ہونی چاہئے کہ ڈاکٹر قادری اور عمران خان جس انقلاب اور لانگ مارچ کا ڈول ڈال رہے ہیں، وہ کچھ ایسا قابل عمل نہیں۔
علامہ قادری بڑے فصیح و بلیغ مقرر ہوں گے۔ وہ لوگوں کو سڑکوں پر بھی لے آئیں گے لیکن انقلاب نہیں لا سکیں گے۔ ہاں پُرامن احتجاج جو عمران خان کا مطالبہ ہے ، و ہ قابل ِ عمل بھی ہے اور جمہوری معاشروں میں کوئی انہونی بات بھی نہیں۔.... میرا اندازہ ہے کہ یا تو ڈاکٹر صاحب ”نعرہ¿ انقلاب“ کو ترک کر کے عمران خان کے پُرامن لانگ مارچ کے راستے پر چل پڑیں گے یا ان کے اور عمران خان کے راستے الگ ہو جائیں گے۔
عمران خان کی تقاریر میں بمقابلہ ڈاکٹر علامہ قادری، توازن و اعتدال کا پہلو نمایاں تر ہوتا ہے۔ جہاں ڈاکٹر صاحب سراپا آتش ہو جاتے ہیں، وہاں عمران خان سنبھل کر بات کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ اقتدار کا تاج جتنا بھاری ہوتا ہے، اتنی ہی پہننے والے کو نیند کم آتی ہے۔ بادشاہ اونگھتا رہتا ہے، خراٹے نہیں بھر سکتا۔.... اور یہ خان صاحب کی ایک بڑی خوبی ہے جو ان کے روشن مستقبل کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
لیکن انہوں نے لانگ مارچ کی جو کال دی ہے اس کے جواز سے تو ذرہ بھر انکار نہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت بوکھلا گئی ہے، ڈری، سہمی اور ”یرکی“ ہوئی لگ رہی ہے، کبھی آرٹیکل 245کا شوشہ چھوڑتی ہے اور کبھی واپس لینے کا اعلان کر دیتی ہے۔ اربابِ اختیار پر بے یقینی کی کیفیت طاری ہے وغیرہ وغیرہ۔
ان تمام تصورات و تخیلات میں وزن ہے لیکن خان صاحب کے چند اعلانات و بیانات ایسے ہیں کہ ان کا روبہ عمل آنا اور تخیل سے حقیقت میں ڈھل جانا ، ناقابل ِ یقین نظر آتا ہے۔ اس بے یقینی کے پس پشت جو عوامل ہیں وہ بیشتر انتظام و انصرام (Logistic and Administration) سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلا:
(1) وسط اگست نہ بہار کا موسم ہے نہ خزاں کا، بلکہ ساون بھادوں کا موسم ہے کہ جب گرمی، حبس اور ہوا کی بندش، انسانی جسم و جان پر نہایت گراں گزرتی ہے۔ عمران خان10لاکھ کی بات کرتے ہیں اگر 10،20ہزار کا حساب بھی لگائیں تو پہلے ڈی چوک کا طول و عرض ماپ کر اس کا رقبہ نکال لیں اور اس کو20ہزار نفوس پر تقسیم کر کے دیکھ لیں۔ ایک آدمی کے حصے میں جو جگہ آئے گی اس کا حساب لگائیں کہ کیا وہ آدمی اس موسم میںاَن گنت ایام تک گزارا کر سکتا ہے؟
(2) بعض انسانی ضروریات ایسی ہیں جو مضبوط سے مضبوط اعصاب والے انسان کو بھی ڈگمگا دیتی ہیں، ڈانواں ڈول کر دیتی ہیں۔ شیخ سعدی نے ایک حکایت لکھی ہے جس میں بتانا چاہا ہے کہ ایک سال مُلک شام میں سخت قحط پڑا۔ قحط کی شدت کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ قحط اتنا سنگین تھا کہ عشاق حضرات، عشق کرنا بھول گئے:
چناں قحط سالے شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
یہ20ہزار لوگ کب تک بھوکے پیاسے رہ سکتے ہیں؟ کب تک ان کے دوست و احباب ان کے راشن پانی کی ذمہ داری لے سکتے ہیں اور کب تک لانگ مارچ کا جذب و جنوں باقی رہ سکتا ہے، اس کا حساب کتاب خان صاحب کی کور انتظامیہ کمیٹی کو ضرور لگانا چاہئے۔
(3) کہتے ہیں نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ اگر بالفرض محال یہ لانگ مارچ15،20دن تک طول کھینچتا ہے تو کون لوگ باری باری سوئیں گے، کون جاگیں گے اور کتنے ہوں گے جو ملیریا کا شکار نہیں ہوں گے۔.... اس پہلو کا اندازہ بھی ضرور لگا لینا چاہئے۔
(4) مَیں ایک اور پہلو کی طرف عمران خان صاحب کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ان ہزاروں، لاکھوں لوگوں کے ”بول و براز“ کا کیا انتظام ہو گا؟.... انسان نہ تو پیشاب زیادہ دیر روک سکتا ہے نہ فضلے کو معدے کے اندر تا دیر قید رکھ سکتا ہے۔ انہیں باہر آ کے ہی رہنا ہے اور جب یہ بول و براز، انسانی جسم سے ”بالجبر“ خارج ہوں گے تو کیا عشّاقِ لانگ مارچ کا سارا عشق، کافور نہیں ہو جائے گا؟ یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف، ڈی چوک یا اس کے آس پاس کتنے کمیونٹی باتھ روم بنائے گی؟ صاف پانی کی آمدورفت کا کیا بندوبست کرے گی۔ مردوں اور خواتین کے لئے الگ الگ کتنے واش روم بنائے جائیں گے، شہروں میں رہنے کے عادی نوجوان مرد و زن کے کھانے پینے اور بول و براز کے علاوہ نہانے دھونے کا کیا انتظام ہو گا؟ کپڑوں کے کتنے صاف جوڑے فی کس ساتھ رکھے جا سکتے ہیں؟....
(5) یہ لانگ مارچ مخلوط لانگ مارچ ہو گا۔ لیکن جو قوم مخلوط تعلیم کو نہیں سنبھال سکتی وہ مخلوط لانگ مارچ کی فضا میں اخلاقی اقدار کی حفاظت کیسے کرے گی؟
مندرجہ بالا پانچ وجوہات کی بنا پر مَیں نہیں سمجھتا کہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ اپنے مقصد کو پا لے گا۔ حکومت اگر پولیس یا رینجرز کو سختی سے منع بھی کرے کہ خبردار کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی، تو تب بھی صرف اور صرف لاجسٹک پرابلم ایک ایسی پرابلم بن جائے گی جو لانگ مارچ کو شارٹ مارچ اور پھر اباﺅٹ ٹرن اور کوئیک مارچ میں تبدیل کر دے گی۔
اگر عمران خان نے لانگ مارچ ضرور ہی کروانی ہے تو ایک ڈی چوک کی بجائے چار ڈی چوک درکار ہوں گے، جہاں شرکائے لانگ مارچ کی انسانی ضروریات مثلاً کھانا پکانا، سونا، نہانا دھونا اور نعرے لگانا وغیرہ کا انتظام کرنا پڑے گا۔ اگر لانگ مارچ نے طول کھینچا اور پولیس یا رینجرز نے کمالِ برداشت کا مظاہرہ بھی کیا تو شرکائے مارچ میں سے ایک چھوٹے سے گروہ کا پیمانہ ¿ صبر لبریز ہو سکتا ہے.... بُھس کے ڈھیر کو خس و خاشاک بننے کے لئے صرف ایک ماچس یا چنگاری کی ضرورت ہی تو ہوتی ہے!
چنانچہ حکومت اور تحریک انصاف دونوں کے لئے امن و عافیت کی راہ یہی ہے کہ دونوں فریق افہام و تفہیم سے کام لیں۔.... اس کے تین طریقے ہیں:
(1) ٹریک ٹو ڈپلومیسی سے کام لیا جائے، کوئی ایسا بندہ¿ خدا تلاش کیا جائے جس پر دونوں فریقوں کو اعتماد ہو، وہ غیر سیاسی ہو ، غیر جانبدار ہو، صاحب ِ ثروت نہ ہو، صاحبِ کردار ہو، ایسا درویش ہو کہ جس کے سامنے فغفوری جھک جائے!
(2) حکومت یا تو تحریک انصاف کی شرائط کا وہ Segment تسلیم کر لے جو عمران خان کا مطالبہ ہے یا مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دے۔
(3) ”کچھ لو اور کچھ دو“ کی ایسی صورت قبول کر لی جائے جو دونوں فریقوں کے لئے Win,Win نظر آتی ہو۔
آخر میں، نجانے مجھے کیوں یقین سا ہے کہ یہ ”پُرامن لانگ مارچ“ نہیں ہو گا۔ بیچ کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکلے گا۔

مزید :

کالم -