اسلام آباد پر چڑھائی کیوں؟

اسلام آباد پر چڑھائی کیوں؟
اسلام آباد پر چڑھائی کیوں؟
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں ایوب خان کا دور اس لحاظ سے سنہری دور تھا کہ اس میں سربراہ مملکت کا ترقی و خوشحالی کا ویژن نظر آتا ہے۔ زرعی وصنعتی انقلاب کی عملی جدوجہد کی گئی۔ توانائی کے عظیم الشان منصوبے شروع ہوئے اور آبپاشی کا وسیع نظام قائم کیا گیا جو آج ہماری ضروریات کو پورا کررہا ہے۔ ایوب خان کے بعد کے تمام ادوار میں ویژن سے خالی اور ڈنگ ٹپاﺅ منصوبوں کے ذریعے وقت برباد کیا گیا۔ یہ سب حکمران اپنے اپنے دور میں بس ہوائی قلعے قائم کرتے رہے، مگر عمل کے لحاظ سے صفر رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک آج توانائی کے بدترین بحران کا شکار ہے، صنعتیں بند پڑی ہیں، نئی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے ، کسان پانی کی کمی کی وجہ سے زمینوں سے مطلوبہ پیداوار لینے میں ناکام ہیں، ملک کی ہزاروں ایکڑ زمین سوکھے کا شکار ہے، تھر جیسے علاقوں میں انسان اور جانور پیاس سے مر رہے ہیں۔
ایوب خان نے 3مارچ 1959ءکو تونسہ بیراج کا افتتاح کیا، 22نومبر 1959ءکو پاکستان میں آکسیجن گیس کی تیاری کے لئے پہلے کارخانے کا آغاز کیا۔ 20ستمبر 1961ءکو آئل اینڈ گیس کارپوریشن قائم کی گئی، 6مئی 1962ءکو سکھر اور روہڑی کے درمیان ریلوے پل کا افتتاح کیا، 17مئی 1962ءکو راول ڈیم کا افتتاح کیا، یکم مارچ 1963ءکو گدو بیراج کا افتتاح کیا، 31مئی 1965ءکو ایٹمی توانائی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، 1961ءمیں شروع ہونے والے منگلا ڈیم کا افتتاح 23نومبر 1967ءکو کیا گیا، یہ دنیا کا نواں سب سے بڑا ڈیم تھا۔ دنیا کے دوسرے بڑے ڈیم ”تربیلہ ڈیم“ کا 1968ءمیں آغاز کیا گیا، جس سے 3478میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی تھی، یکم مارچ 1963ءکو گدو بیراج کا افتتاح کیا گیا، منگلا ڈیم اور تربیلہ ڈیم میں پانی سٹور کرنے ہی کی وجہ سے بڑے بڑے بیراج بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور پانی کو نہروں کے ذریعے ملک کے بنجر اور خشک علاقوں تک پہنچانے کے لئے دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم کیا گیا۔

صنعتی ، زرعی اور توانائی کے شعبوں میں ترقی کے لحاظ سے ایوب خان کا دور انقلابی دورتھا، لیکن افسوس کہ ایوب خان کے بعد آنے والے کسی حکمران نے سنجیدگی نہ دکھائی اور آبادی میں مسلسل اضافے کے باوجود توانائی کے حصول میں اضافہ نہ کیا گیا، جس کی وجہ سے آج ہم بدترین بحران سے گزررہے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر ایوب خان نے یہ کارنامے انجام نہ دیئے ہوتے تو ہم نہ جانے کب کے ایتھوپیا کی طرح قحط سالی کا شکار ہوچکے ہوتے؟.... ایوب خان کے ویژنری عہد کے بعد 2013ءکے عام الیکشن میں جیتنے والی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم میاں محمدنواز شریف میں ایوبی انقلاب کی وہی جھلک نظر آرہی ہے، وہ بھی توانائی کے منصوبوں پر سنجیدگی سے کام کررہے ہیں اور ایک بار پھر پاکستان کو توانائی کے شعبے میں خودکفیل کرنے کا خواب شرمندہ¿ تعبیر کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ وہ ماضی کی حکومتوں کی طرح رینٹل پاور اور تیل سے مہنگی بجلی حاصل کرنے کی بجائے پانی، کوئلے ، سورج کی حرارت اور ہواکے ذریعے سستی بجلی کے حصول کے منصوبوں پر تیز رفتاری کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ان کا بجلی کی پیداوار کا ٹارگٹ اگلے دس سال میں پچیس سے پینتیس ہزار میگاواٹ تک لے جانے کا ہے۔ دعا ہے اللہ پاک ان کے عزم کی تکمیل کرے۔ میاں محمد نواز شریف نے اس کے علاوہ موٹروے جیسے منصوبوں کی تعمیر کا بیڑا بھی اٹھا رکھا ہے، جو انتہائی مثبت قدم ہے۔
اب آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ایوب خان کے بعد کیا میاں نواز شریف توانائی کے حصول کے ان عظیم منصوبوں پر عمل کرسکیں گے اور انہیں مزید چارسال سنجیدگی سے کام کرنے دیا جائے گا؟ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 27جون کو بہاولپور جلسے میں 2013ءکے عام انتخابات کے شفاف ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔کپتان اس سے پہلے چارحلقوں میں نادرا کے ذریعے ووٹوں کی تصدیق کا مطالبہ کرتا رہا، لیکن حکومت نے تدبر سے اس مطالبے کو حل کرنے کی بجائے سنجیدگی سے اس مطالبے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ مئی جون کے گرم موسم میں کپتان کے اسلام آباد، فیصل آباد، سیالکوٹ اور بہاولپور کے جلسوں میں جوانوں کی بھرپور شرکت اور جوش وولولہ دیکھ کر اپنے چار حلقوں کے مطالبے پر حکومت کی غیر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے کپتان بھی جوش میں آگیا اور سیاست کے میدان کو بھی چار نئے مطالبے پیش کرکے گرما دیا۔ کپتان نے چار ایسے مطالبے پیش کردیئے ہیں جنہیں پورا کرنا وزیراعظم کے لئے ناممکن ہے، یعنی کپتان نے وزیراعظم نواز شریف سے چارمطالبات نما الزامات میں انہیں ایک مہینے کا وقت دیا ہے کہ وہ ایک مہینے میں ثابت کریں کہ انہوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کی ہے اور فلاں فلاں لوگ ان کی اس دھاندلی میں کیا کردار ادا کررہے تھے؟
واہ کپتان واہ چھا گئے ہو، جو لوگ منہ ڈھیلا کرکے کہتے ہیں کہ کپتان ابھی تک سیاستدان نہیں بن سکا، انہیں کپتان کے مطالبات پر غور کرکے اپنی رائے بدل لینی چاہئے۔ کپتان سیاست کے میدان کا کافی شاطر کھلاڑی بن چکا ہے۔ کپتان کے مطالبات چودہ اگست 2014ءتو کیا اگلے ہزار سال میں بھی پورے ہونا ممکن نہیں۔ احتجاج اور دھاندلی کے خلاف شورشرابے کا اصل وقت الیکشن کے فوراً بعد تھا، مگر اس وقت کپتان اور ان کی پارٹی نے الیکشن تسلیم کر کے، اسمبلیوں میں حلف لے کر اور خیبرپختونخوا کی حکومت لے کر اہم موقع ضائع کردیا۔ اب ان کے پاس اپنے مطالبات منوانے کا اخلاقی جواز اور صحیح وقت نہیں۔ کپتان کی ذمہ داری اب ایک متحرک اپوزیشن لیڈر کی ہے، بطور دوسری بڑی پارٹی اسے اگلے عام انتخابات کو الیکٹرانک سسٹم کے ذریعے کرانے کی جدوجہد کرنا ہو گی۔
 انہیں چار حلقوں میں نادرا کے ذریعے تصدیق کے مطالبے کو بھی منوانے کے لئے اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج کا حق استعمال کرکے حکومت کو مجبور کرنا ہوگا، امیر لوگوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کے لئے بھی بھرپور آواز بلند کرتے رہنا چاہئے ، بیرون ملک سرمائے کو وطن لانے کے لئے بھی کوشش جاری رکھنی چاہئے، سب سے بڑھ کر کے پی کے میں صوبائی حکومت کو وہ مثال بناکر پیش کرنا چاہئے جو الیکشن سے پہلے بھارت کے صوبہ بہار کے وزیر اعلیٰ نیتش کمار کی دیا کرتا تھا۔ اپوزیشن کا کام حکومت گرانا نہیں، اس کی اصلاح کرتا ہے....کپتان صاحب تھوڑا صبر وتحمل سے کام لیں ۔ آپ کا چار حلقوں کا مطالبہ جائز ہے، عوامی مینڈیٹ چوری کرنے والے بے نقاب ہونے چاہئیں ، موروثی جمہوریت اور خاندان میں عہدے بانٹنے کے غیر جمہوری رویے بھی قابل مذمت ہیں.... مسلم لیگ (ن) کی پولیس گردی اور تھانہ کلچر بھی انتہائی ناپسندیدہ فعل ہیں، سرکاری خزانے سے ذاتی تشہیر بھی غیراخلاقی وغیر جمہوری فعل ہے، لیکن یہ سب قابل اصلاح عمل ہیں ، ان حرکات سے حکومت کو روکنا اور غیرجمہوری رویے بدلنے پر مجبور کرنا بطور اپوزیشن پارٹی آپ کی ذمہ داری ہے۔
اگر آپ حکومت کو ان رویوں کو بدلنے پر مجبور نہیں کرتے تو یہ بطور اپوزیشن آپ کی ناکامی ہے۔ اس کا یہ حل نہیں کہ عوامی جم غفیر لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کردی جائے اور حکومت کا دھرن تختہ کردیا جائے، کپتان کا فرض یہ ہے کہ اس حکومت کو پانچ سال دیں اور چار عشروں بعد توانائی کے حصول کے جو عظیم منصوبے شروع ہوئے ہیں، انہیں پورا ہونے دیں۔ ترقی وخوش الحال کے لئے یہ قوم آمروں کو برداشت کرتی رہی ہے تو ایک جمہوری یا نیم جمہوری وزیراعظم کو اپنے منصوبے تکمیل کرنے کا موقعہ دینے میں کیا برائی ہے؟آپ اپنے لانگ مارچ کا نتیجہ بھی ذہن میں رکھیں.... کہاوت مشہور ہے.... دوچڑے درخت پر لڑرہے تھے، درخت کے نیچے بلا بیٹھا انہیں دیکھ رہا تھا، وہ دونوں لڑتے لڑتے درخت سے نیچے زمین پر آگرے، بلے نے جھپٹ کر دونوں کو کھا لیا اور ڈکارتے ہوئے کہا، اگر مَیں نہ کھاتا تو ان دونوں نے ویسے بھی لڑتے ہوئے مرجاناتھا ۔ کپتان اور میاں صاحب لڑائی کو پانچویں آمریت تک نہ جانے دیجئے گا، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ دونوں لڑتے لڑتے کسی تیسرے کا ڈکار بن جائیں۔

مزید :

کالم -