آئینہ

آئینہ
آئینہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمران خان نے خود کو ہی نہیں تبدیلی کی حقیقی اور جائز آرزو کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ عدالتی کمیشن کی رپورٹ (روداد) سامنے آنے کے بعد یہ عمران خان کے لئے خود کو تولنے ٹٹولنے اور کھولنے کھنگالنے کا ایک موقع ہے۔اُنہیں سنجیدگی سے اب تک اپنی نارسائیوں اور کارگزاریوں پر غور کرنا چاہئے۔ اگر وہ یہ نہیں کریں گے تو آئندہ کے لئے اپنے قابلِ رسا اہداف کا بنیادی شعور تک حاصل نہیں کرپائیں گے۔ اور ایک بار پھر گمراہ کن مقاصد متعین کرکے، ناقابلِ حصول تمناؤں کے قیدی بن کر خود کو ایک تماشا بنا دیں گے۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ عمران خان نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ ابھی تک آئینے میں دوسروں کو اُن کے چہرے دکھانے کے کارِ لاحاصل میں مبتلا اور خود اپنا چہرہ اُسی آئینے میں دیکھنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ جس کے باعث وہ ملکی منظر نامے پر اپنی سنجیدگی کا کوئی نقش مرتب نہیں کر پارہے۔ یہی ماجرا اُن کی کُل جماعت اور اس کے انگڑ کھنگڑ کا ہے۔


عمران خان کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے والی ’’قوتوں‘‘ نے دراصل عمران خان کو ’’داؤ‘‘ پر لگا کر یہ پورا ناٹک رچایا تھا۔ ا س پورے ناٹک میں شامل ایک اہم ادارے کے اہم ترین ’’صاحب‘‘ سے ایک موقع پر جب اس ضمن میں مکالمہ ہوا تو وہ اِس ناٹک کو رچانے سے کئی ماہ پہلے ہی اس پر پوری طرح واضح تھے کہ عمران خان سیاست کا متبادل راستا نہیں بن سکتا۔ وہ اُس کی سیلانی طبعیت کا ایک پورا خاکہ کاغذ پر مرتب کرکے بیٹھے تھے۔ اُنہیں یہ معلوم تھا کہ عمران خان پر پورا بھروسا کبھی بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کالم نگاروں اور کرائے پر حاصل ٹیلی ویژن میزبانوں کی زبانوں سے بنائے گئے مصنوعی ماحول کے بالکل برعکس وہ عمران خان کی انتظامی صلاحیتوں پر بھی شک رکھتے تھے۔ اُن کی تمام باتوں کا خلاصہ ایک فقرے میں یوں بیان کیا جاسکتا تھا کہ ’’عمران احتجاج کا چہرہ تو بن سکتا ہے اقتدار کا نہیں۔‘‘خاکہ کش قوتوں کو کبھی بھی یہ شک نہیں ہوا کہ عمران خان اپنی سیاسی موسیقی کے اس گیت یعنی ’’گو نواز گو ‘‘ کو ’’کم عمران کم‘‘ میں بدل سکتے ہیں۔ ‘‘چنانچہ غور کیجئے! عمران خان کو احتجاج کی حدت وشدت میں مسلسل جہاں دھکیلا جارہا تھا، اُس سے کہیں یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کبھی بھی خود ایک حکمران بننے کے لئے قابلِ قبول مقام حاصل کر پائیں گے۔ اگر غور کیا جاتا تو تب ہی لوگ سمجھ سکتے تھے کہ نواز شریف سے اگر زور زبردستی سے اقتدار چھین بھی لیا جاتا تو بھی اُنہیں معاشرے کی اُن تمام مستقل قوتوں سے نبردآزما کر دیا گیا تھا جنہیں بہرحال باقی رہنا تھا۔ عمران خان کبھی بھی ذرائع ابلاغ کی اُن قوتوں کو اب اپنے حق میں مکمل استوار نہ کرپائیں گے جنہیں وہ کچھ ’’عناصر‘‘ کے اشاروں پر للکارتے اور دھتکارتے رہے۔ وہ اُنہیں نشانۂ تنقید کے بجائے نشانۂ تحقیر بناتے رہے۔ آدمی تنقید گوارا ورپھر فراموش بھی کردیتا ہے مگر وہ اپنی تحقیر کبھی نہیں بھولتا۔ آخر عمران خان کس کے بوتے اور برتے پر ہر ایک کو گالی دے رہے تھے۔ ذلت کے ایسے مناظر وہ لوگ بھی برداشت نہیں کرپارہے تھے جو اس کے شکار نہیں تھے۔جناب قدرت اللہ چودھری نے شمار کررکھا ہے کہ عمران خان نے افتخار چودھری پر 73مرتبہ اورنجم سیٹھی پر 65مرتبہ دھاندلی کے الزامات لگائے۔ اُنہوں نے میر شکیل الرحمان کا نام لے لے کر اُن پر ملامت کی۔ میر شکیل الرحمان پر گفتگو کے لئے اُن کے پاس کوئی ارفع مقصد نہ تھا۔ اُنہیں اُن کی اُن ابلاغی پالیسیوں پر مہذب الفاظ میں نشانۂ تنقید بنایا جاسکتا تھا جس کے تحت اُنہوں نے مذہب ، معاشرت ، ثقافت اور صحافت سب کو تجارت بنا کر اُنہیں سرمائے کی پرستش پر مامور کردیا ہے مگر عمران خان کے پاس میر شکیل الرحمان کو نشانۂ تنقید بنانے کی وجہ بہت ہی پست اور کہتر تھی کہ اُنہوں نے انتخابی دھاندلی میں نون لیگ کی مدد کی ہے۔ معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ جیو انتخابی ماحول میں بعض مواقع پر خود تحریکِ انصاف کے حق میں غیر متوازن دکھائی دیا تھا، مگر ظاہر ہے کہ عمران خان نے یہ کسی کے ایما پر کیا تھا۔ یہی کچھ مولانا فضل الرحمان کے معاملے میں بھی ہوا ۔ جن کے خلاف ایک متعصبانہ ماحول میں اکثر زبانیں دراز رہتی ہیں۔ وہ سیاست کے اسرارورموز کو سمجھنے والے ایک کامیاب سیاست دان ہیں۔ جنہیں بہت سے ’’عناصر‘‘ طرح طرح کے غیر ثابت شدہ ’’اسکینڈلز‘‘(فضیتوں) میں ملوث کرکے اپنی ڈھب پر لانے میں ناکامی کے بعد اپنے مستقل نشانے پر رکھتے ہیں۔ اُن کے خلاف بازاری زبان تو اب استعمال کی گئی مگرعمران خان کی سیاست میں پیدائش سے قبل بھی اُن کے خلاف بازاری عورتیں تک میدان میں لائی جاتی رہیں۔ کیا یہ سارا کھیل کسی بھی آدرش سماج کی تشکیل میں گوارا کیا جاسکتا ہے؟مولانا فضل الرحمان اسٹیبلشمنٹ کے خاکے کے برخلاف رہ کر اپنے رجحانات سے سیاست کرکے ایک کامیاب سیاست دان کا تاثر اپنے مخالفین پر بھی نقش کر چکے ہیں۔ عمران خان کسی بھی سطح پر اخلاقی طور پر مولانا کے خلاف بات کرنے کے اہل نہ تھے ،مگر یہ بھی اُن کے ہاتھ تھمائے گئے خاکے کا حصہ تھا۔ وہ گھوڑے گدھے، چوزے اور پلے کے درمیان فرق کو ہی نہیں سمجھ رہے تھے ۔ہر ایک کے لئے اُن کے پاس ایک زبان اور ایک سی حقارت تھی۔ اوئے اور ابے تبے کی جو زبان وہ بار بار بولتے رہے،اگر پورا انتخابی عمل منظم دھاندلی کا شکار ہوتا اور عدالتی کمیشن کی رپورٹ مکمل عمران خان کے حق میں آجاتی، اس کے باوجود بھی یہ زبان گوارا نہیں کی جاسکتی تھی ۔مگر عمران خان یہ زبان کسی بھی ثبوت کے بغیر استعمال کرتے رہے۔ 35 پنکچرز والی بات عمران خان نے خود سیاسی بات کہہ کر ٹال دی اور اب افتخار چودھری کے ملوث ہونے کی بات حامد خان نے غلط کہہ دی۔ یہ سب کچھ کیا اتنا ہی آسان ہے۔ اس نے کتنے دماغوں کو چھلنی کتنے دلوں کو زخمی اور کتنے افراد کو متعصب بنا دیا۔ جیسے نوازشریف کے کچھ حامی کرائے کے قلم کار بتائے جاتے ہیں ،کیا عمران خان کے حامی قلم کاروں پر اسی نوع کی پھبتی کسی جاسکتی ہے؟عمران خان نے صرف دھرنا نہیں دیا تھا بلکہ ہمارے پورے سماج کی بنت کو دھچکا دیا تھا۔یہ سماجی بنت اپنی بنیادوں میں عمران خان کے دھرنے سے کہیں زیادہ کسی حکومت کی غلط روی کے خلاف دفاع کی طاقت رکھتی ہے اور اِسے کسی ادارے کے’’ چند ملازمین ‘‘ کے جنبشِ ابرو کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔عمران خان کو ان پہلوؤں پر بہت ٹھنڈے دل ودماغ سے اب غور کی ضرورت ہے۔کیونکہ عمران خان کے لئے آئندہ کا راستا پہلے سے کہیں زیادہ تلخ ثابت ہوگا۔


عمران خان کے لئے اب جائز انتخابی عمل سے اسلام آباد کا سفر نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ وہ گزشتہ انتخابی ماحول کی سنسنی خیزی کبھی حاصل نہ کرسکیں گے۔ انتخابات سے پہلے اُن پر داؤ لگانے والی قوتیں اب اُن کے معاملے میں ’’ محتاط روی‘‘ پر مجبور رہیں گی۔پھر عمران خان کے رویئے اور ناپختگی نے اُنہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیاہے کہ ان سے کسی نوع کامعاملہ سانجھے کی ہنڈیا کو بیچ چوراہے پر لانے کے مترادف ہوگا۔ اُنہوں نے دھرنے سے پہلے اور بعد کے کچھ عرصے تک جس طرح کچھ لوگوں کے نام لئے اور لوگوں کے ذاتی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ وہ اُن کے حوالے سے ایک ناقابلِ اعتبار شخص کے طور پر ایک خطرناک رائے پیدا کرنے کا موجب بنا ہے۔ اُنہوں نے ایک حاضر خدمت برگیڈئیر کا نام انتخابی دھاندلی کے حوالے سے منکشف کرنے کا اعلان کیا اور پھر اُنہیں اعلان کردہ وقت پر چپ سی لگ گئی۔ اس کاپسِ منظر ظاہر کرتا ہے کہ ایک بہادر آدمی کے طور پر ان کی بنائی گئی چھوی بھی پوری طرح درست نہیں۔ اُنہیں اسی ادارے کے کچھ لوگوں نے زمان پارک میں ملاقات کرکے اس کے خطرناک نتائج کی طرف متوجہ کیا جس کے بعد بہادر عمران خان کو ایک چپ سی لگ گئی۔ یہی کچھ ماجرا توہین عدالت کے حوالے سے اُن کی طلبی پر ہوا۔ جس میں ایک لفظ کے استعمال پر اُنہیں معافی مانگنی پڑی۔مگر وہ پھر اُسی تیور کے ساتھ نمودار ہوئے۔اس نے عمران خان کا رہاسہا اعتبار بھی اب ختم کردیا ہے۔عمران خان کے لئے اب اپنے ماضی کو ٹٹولے بغیر مستقبل کی راہ نہیں نکل پائے گی۔ اس کے باوجود کہ نوازشریف اپنی حکمرانی کے بدترین طرزِ عمل سے شدید مخالفت کی زد میں آجائیں ، عمران خان کو جو کچھ مل گیا ہے اُس سے زیادہ کی حصولیابی انتہائی مشکل ترین ہوگی۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ وہ بات آدرش کی کرتے ہیں اور اپنا عمل چند بدترین لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا دیتے ہیں۔ جس نے اُن کی منزل کو خود اُن سے ہی نہیں خو داُنہیں بھی اپنے آپ سے دور کردیا ہے۔ اُن کے تصورات اور اعمال کی اس آویزش کا جائزہ اگلی تحریر پر اُٹھا رکھتے ہیں۔

مزید :

کالم -