کرنل (ر)امجد حسین کی باتیں
کرنل (ریٹائرڈ)سید امجد حسین (مرحوم) تاریخ پاکستان کا ایک ایسا نام ہے جن کی پوری زندگی جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھی اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ایک چلتا پھرتا پاکستان تھے۔ وفات سے چندماہ قبل مجھے نظریہ پاکستان کے ایک متحرک کارکن کے ساتھ جناب سید کے پاس جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پاکستان کے موجودہ حکمرانوں اور لیڈر شپ کے بحران پر گفتگو شروع ہو گئی انہوں نے حضرت قائد اعظمؒ سے گفتگو شروع کر کے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ پر ختم کر دی ،میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ آج کے حالات میں کون سا لیڈر قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار کو فالو کر رہا ہے تو وہ زیر لب مسکرائے اور خاموش ہو گئے انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے کہ آج کل کے سیاستدانوں کی تباہی میں سب سے بڑا ہاتھ ان کے مشیروں کا ہوتا ہے پھر کہنے لگے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے ساتھیوں کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تین افراد کو کسی حالت میں مشیر نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی ایسے لوگوں سے مشورہ مانگنا چاہئے،جس کے جواب میں محفل میں موجود حضرت حسنؓ نے کہا کہ بابا ایسے لوگوں میں ایک شخص کا اور اضافہ کر لیں اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ تین کا ذکر میں کرتا ہوں ایک کا آپ بتائیں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا آپ کا مشیر بخیل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ آپ کو دوسروں پرخرچ کرنے اور فراخ دلی سے معاملات کرنے سے روکے گا جو اسلام کی روح کیخلاف بات ہے،ایسا شخص آپ کو غریبوں، یتیموں اور مساکین کی مدد کرنے سے روکے گا اور آپ کو کہے گا کہ یہ لوگ خود بھی کما سکتے ہیں ایسے لوگوں کی مدد کیوں کی جائے یعنی ایسا شخص آپ کو سمجھائے گا کہ بس آپ اپنا اکاؤنٹ ٹھیک رکھیں ان لوگوں کی ذمہ داری تو خود اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہے۔ دوسرا وہ شخص جو بزدل ہو اس سے مشورہ نہ لو ایسے شخص کو مشیر مت رکھو ایسا شخص آپ کو ہر وقت ڈراتا رہے گا کیونکہ بزدل شخص کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر کام کی بات میں آپ کو مایوس کرے گا وہ ہر وقت آپ کے دل میں طرح طرح کے ڈر اوے پیدا کر دے گا۔اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ حریص لالچی اور طمع والے شخص کو کبھی اپنا مشیر مت بنائیں کیونکہ وہ آپ کو ہر وقت لوٹ مار،لالچ اور دولت جمع کرنے پر اکساتا رہے گا ایسا شخص آپ کو چوری چکاری اور ہیرا پھیری کے راستے بتائے گا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بات ختم ہوئی تو انہوں نے حضرت حسنؓ سے فرمایا کہ اب آپ بتائیں کہ چوتھی کون سی بات ہے اس پر حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ چوتھا وہ شخص جو جلد باز ،بے صبرا ہو اس کو بھی مشیر نہیں ہونا چاہئے اس سے بھی لیا گیا مشورہ آپ کو فائدہ نہیں نقصان پہنچائے گا۔میں سید کرنل امجد حسین(مرحوم) کی گفتگو سنتا جا رہا تھا اور سوچتا جا رہا تھا کہ ایسے لوگ کہاں پائے جاتے ہیں ،کاش آج کے حکمران ایسے درویشوں کے پاس آ کر کچھ وقت گزار لیں تو وہ کبھی ذلیل و رسوا نہ ہوں کیونکہ مجھے نواز شریف سے لے کر پرویز مشرف اور بینظیر سے لے کر زیڈ اے بھٹو تک کی عروج و زوال کی کہانی میں Selection of Peopleکی غلطی ہی نظر آتی ہے۔ اگر یہ حکمران اپنے مشیروں کے انتخاب میں غلطی نہ کرتے تو یہ کبھی بھی ذلیل و رسوا نہ ہوتے آج ان کی بھی بعد از مرگ پوجا کی جا رہی ہوتی ،میں شاہ صاحب کے گھر سے نکلا پورا راستہ سوچتا رہا کاش پرویز مشرف نے اپنے مشیروں کے انتخاب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی یہ نصیحت پڑھ لی ہوتی ،کاش بے نظیر بھٹو یا ان کے والد زیڈ اے بھٹو اپنے مشیروں کی فوج بھرتی کرنے سے پہلے شاہ صاحب کے اس پیمانے کو سمجھ چکے ہوتے تو یقین جانیئے ان حکمرانوں کا انجام جو آج پوری دنیا کے سامنے ہے وہ نہ ہوتا ۔کرنل(ر)امجد حسین (مرحوم) ایک انسائیکلوپیڈیا تھے ،حضرت قائد اعظمؒ سے ان کو دلی محبت اور علامہ اقبالؒ سے عشق تھا،اقبال شناسی کے جن پہلوؤں سے وہ آگاہ تھے شاید ہی کوئی دوسرا شخص تھا ، علامہ اقبالؒ سے عشق کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے اپنی وفات سے قبل اپنی پیاری بیٹی کو اپنے پاس بلایا اور ان کو علامہ اقبالؒ کا شعر پہلے لکھوایا اور بعد ازاں مفہوم کے ساتھ سمجھایا کہ یہ شعر میری قبر کے اوپر لکھ دیا جائے ،ان کی پوری زندگی کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو ان کی پوری زندگی نظریہ پاکستان ،پاکستانیت کا عکس تھی ،وہ ایک ایسے درویش تھے جنہوں نے 97سال کی عمر تک کسی کے لئے بد دعا نہیں مانگی،کسی کا برا نہیں کیا۔سخاوت ان کی زندگی کا خاصا تھا،تعلقات بنانے اور نبھانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ،اس کی تفصیل میں جائیں تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ،مثبت ذہن کے ساتھ خوبصورت سوچ کے ساتھ زندگی گزارنے کا نتیجہ تھا کہ 97سال کی عمر تک وہ نہ صرف مکمل صحت مند تھے بلکہ ان کی یادداشت مکمل طور پر کام کر رہی تھی،وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے ہمیشہ اپنی اولاد کو رزقِ حلال کھلایا ،اس رزق حلال کی تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشاہد حسین سید اور مواحد حسین سید کی صورت میں ان کے صاحبزادے آج کے اس گئے گزرے دور میں اپنے کردار کی خوبصورت شمع جلائے ہوئے ہیں جن کے کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔
کرنل امجد حسین(مرحوم) نے بڑی بڑی فیکٹریاں نہیں لگائیں ،بیرون ملک آف شور کمپنیاں بھی قائم نہیں کیں مگر جو فیکٹریاں وہ لگا کر گئے ہیں ان سے انسانیت کو ہمیشہ فیض ملتا رہے گا ،کاش آج کل کے حکمرانوں کو سمجھ آ جائے او ر وہ سمجھ سکیں کہ ایک کمائی آپ کے بڑوں نے کی ہے ایک کمائی کرنل امجد حسین کر گئے آؤ دیکھو غور کرو کس کی کمائی زیادہ بہتر ہے کس کا نام دنیا احترام سے لیتی ہے۔
آج کرنل امجد حسین کی وفات کے بعد بھی پاکستان سے لیکر دنیا کے دوسرے سرے امریکہ تک ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والے چوہدری جاوید الٰہی 28جولائی کو ایک بہت بڑی تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں کرنل امجد حسین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔
میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ زندگی میں یا تو آپ کوئی بڑا کام کر جائیں جو لکھنے کے قابل ہو یا پھر کچھ ایسا لکھ جائیں جو پڑھنے کے قابل ہو ،جناب کرنل (ر) امجد حسین نے یہ دونوں کام انتہائی خوبصورتی کے ساتھ انجام دئیے ہیں اسی لئے تو 97سال کی عمر میں وہ انتہائی پر سکون انداز میں اطمینان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔